مجاہد اردو مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی(۱۹۰۱-۱۹۶۲ء)
جنھیں ہم نے فراموش کردیا
ابرار احمد اجراوی*
بیسویں صدی کے مشہور عالم دین ، مجاہد آزادی اور سیاسی رہ نمامولانا حفظ الرحمن سیوہاروی عالمی اسلامی درس گاہ دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ تھے۔ انھیں مایہ نازمحدث ، فخر زمانہ علامہ انور شاہ کشمیری کا شرف تلمذ حاصل تھا۔ رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعدانھوں نے بھی اپنے اسلاف اور اساتذہ کے نقش قدم پر تدریسی زندگی اختیار کی، مگر شاید یہ خالق کائنات کو مقصود نہ تھا، مولانا سیو ہاروی توپوری امت مسلمہ کی سماجی اور سیاسی اصلاح کے لیے پیدا ہوئے تھے، اس لیے وہ صرف واجبی تعلیم تک اور صرف مدارس کی چہار دیواری میں محصور ہوکر نہ رہے،انھوں نے قصہ قدیم و جدید کو دلیل کم نظری تصور کیا، انھوں نے علم و فن کی صاف ستھری ہواؤوں کے استقبال لیے اپنے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھیں،میدان سیاست میں بھی طبع آزمائی کی، انگریزوں کے چنگل سے وطن عزیز کو آزاد کرانے کے لیے جنگ آزادی میں حصہ لیا، تقسیم ہند کے بعد، فرقہ وارانہ فسادات میں دلی والوں پر جو قیامت ٹوٹی، اس الم ناک موقع پر مولانا دہلی والوں کے لیے شجر سایہ دار بن کر نمودار ہوئے، ایک وفا دار سپاہی کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ کر فرقہ پرستوں کا مقابلہ کیا، اپنی زبر دست قومی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں دستور ساز اسمبلی میں ممبر منتخب ہوئے، جمہوری اور سیکولر آئین وضع کرنے میں خاص رول ادا کیا، ملک میں جمہوریت نافذ ہوئی اور جو پہلی پارلیمنٹ بنی اس میں مولانا بھی ممبر پارلیمنٹ بنے، انھوں نے تین میقات کے لیے امروہہ کے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور تینوں ہی بار مسلمانوں کے حقوق کی بحالی اور حکومت کو دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے تعلیمی، معاشی اور مذہبی حقوق کی بحالی کے لیے تو کوشش کی ہی، تقسیم ہند کے زخموں سے چور اور سیاسی تعصب کا شکاراردو زبان کے لیے بھی انھوں نے جی توڑ کوشش کی۔ انھوں نے تینوں میعاد میں نہ صرف ایوان پارلیمنٹ کے اندر ، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی اردو کے حقوق کی بحالی کے لیے مجاہدہ ومباحثہ کیا۔ انھوں نے اردو کو دیس نکالا دینے کی کوششوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پاکستان کی آڑ میں جو فاشسٹ عناصر اردو کو اس کے لسانی حقوق سے محروم کرنے کے سیاسی حربے آزمایا کرتے تھے، ان تمام کا منہ توڑ جواب دیا۔
آزادی اور تقسیم ہندسے قبل تک ملک کی قومی زبان کے تعلق سے کانگریس اور گاندھی جی دونوں کا نظریہ واضح تھاکہ آزاد ہندستان کی زبان وہ عام فہم ہندستانی ہوگی ، جو شمالی ہندکے بڑے خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کا رسم الخط اردو اور دیو ناگری دونوں ہوگا۔ لیکن ملک کی آزادی اور تقسیم ہند کے بعد سارے مسلمہ اصول اور ماضی کے سارے وعدے ارادے کالعدم کردیے گئے اور اس مجوزہ عام فہم ہندستانی کی جگہ ہندی زبان کو قومی زبان بنانے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ یکم دسمبر ۱۹۴۹ء کو کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی میں جب قومی زبان کا مسئلہ درپیش ہوا ، تو کانگریس اپنے سابقہ قول و قرار سے انحراف کرتے ہوئے ، شدت پسندوں کے سامنے سر بسجود تھی اور ہندی کو قومی زبان بنانے پر تلی ہوئی تھی، بہت کم لوگ گاندھی جی کے نظریے سے متفق تھے، مولانا سیو ہاروی بھی انھی لوگوں میں سے ایک تھے، جو گاندھی جی کے نظریے کو ہی صحیح مانتے تھے۔ مولانا کے علاوہ ، مسٹر رفیع احمد قدوائی اور مولانا کے دست راست آں جہانی خورشیدی لال ہندستانی کی حمایت کر رہے تھے۔ مولانا صرف اکیلے ہی نہیں، بلکہ اپنے ایک ایک حامی کو ڈھونڈ کر لاتے اور اس حوالے سے اتنے مضطرب اوربے چین تھے کہ کہیںکانگریس نام نہاد اکثریت کے سامنے اپنے سابقہ نظریے سے منحرف نہ ہوجائے۔ لیکن جب عددی اکثریت کے ساتھ ہندستانی کو نظر انداز کرکے ہندی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا، تو مولانا سخت ملول اور رنجیدہ تھے، انھوں نے اس پر زبردست احتجاج کیا۔اور قومی زبان کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے کانگریس کو خوب کھری کھوٹی سنائی، انھوں نے کہا:
’’تیس سال تک کانگریس کے پلیٹ فارم سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس ملک کی زبان ہندستانی ہوگی ،جو فرانٹیر تک شمالی ہندستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور زبان کا رسم الخط ہندی اور اردو ہوگا۔ مہاتما گاندھی بھی آخر تک اسی زبان کے حامی رہے، لیکن آج میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ ہم نے کانگریس اور مہاتما گاندھی کے اس اصول کو ٹھکرادیا اور صرف ہندی زبان کو ملک کی قومی زبان بنانے پر زور دینے لگے۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ، مجاہد ملت نمبر، ص:۲۴۸، ۱۹۶۳ء)
مولانا کی تقریر سے پہلے چند متشدد لوگوں نے ہندی کی حمایت میں جو دلیل دی تھی، مولانا نے ان کی دلیلوں کو شواہد سے مسترد کرتے ہوئے گاندھی جی کے حوالے سے کہا:
’’۳۰؍جنوری ۱۹۴۸ء کے بھیانک حادثے سے جب کہ مہاتما گاندھی جی ہم سے چھین لیے گئے، تین روز قبل انھوں نے دوران گفتگو مجھ سے فرمایا تھا کہ اب امن و امان ہوتا جارہا ہے، جس طرح تم لوگوں نے قیام امن کے سلسلے میں میری امداد کی، اسی طرح تمھیں ہندستانی کے پرچار میں بھی ساتھ دینا ہوگا۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۸)
مولانا سے پہلے سیٹھ گوووند داس نے ہندی کی حمایت اور اردو کی مخالفت میں تقریر کی تھی، مولانا اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’سیٹھ گووند داس نے ابھی پہلے کہا کہ اردو میں ہندستان کی چیزوں کے مقابلے میں غیر ملکی چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے، یہ قطعی طور پر غلط ہے۔ اور استدلال میں محسن کاکوروی کا یہ شعر پیش کرتے ہیں کہ
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
بادلوں پر لیے پھرتی ہے ہوا گنگا جل
اس میںجتنے مقامات کا ذکر ہے وہ سب ہندستانی بلکہ خالص ہندو مذہب کے ہیں۔ اس میں نہ تو مدینہ کا دکر ہے اور نہ مکہ کا، نہ آب زم زم کا۔
سیٹھ گووند داس نے اپنی تقریر میں یہ اعتراض بھی کیا تھا کہ اردو کے لیے اس ملک میں اس لیے جائے قرار نہیں مل سکتی کہ کسی ایک ملک میں دو تہذیبوں کا ساتھ رہنا ممکن نہیں۔ در اصل گووند داس زبان کو تہذیب کی بنیاد منوانے پر تلے ہوئے تھے۔مولانا نے زبان کو تہذیب کی بنیاد قررا دینے کی منطق کو دلائل سے رد کیا اورورچھوٹے سے ملک سوئزر لینڈ کی مثال دیتے ہوئے ،جہاں چار زبانوں کو سرکاری حیثیت حاصل ہے، کہا:
’’اگر تہذیب اور سنسکرتی کی بنیاد زبان پر ہے تو ہندستان میں ایک درجن سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ایک سنسکرتی کے لیے ان سب زبانوں کو ملیا میٹ کردینا چاہیے۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۹)
دسمبر ۱۹۵۵ء میں لوک سبھا میں حد بندی کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ پر بحث میں مولانا نے بھی حصہ لیا۔ اور انھوں نے پارلیمنٹ سے یہ اپیل کی کہ وہ دہلی، یوپی اور بہار میں اردو کو علاقائی زبان کی حیثیت سے تسلیم کرلے۔ انھوں نے یہ کہا کہ جس طرح جنوبی ہندستان میں زبان کے مسئلے کو اہمیت دی گئی ہے، شمالی ہندستان میں بھی اس کو اہمیت دی جائے۔ مولانا اس کے بھی حامی تھے کہ اگر ایک اسٹیٹ میں دو یا تین زبانیں بھی ہیں تو ان سب کو سرکاری حیثیت دی جائے۔ اردو کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اگر اردو کو کوئی علاقہ دیا جائے گا تو اس سے ہندی کو نقصان پہنچے گا، اس پر مجھے اختلاف ہے۔ ہماری چودہ زبانیں ہیں، جس طرح بنگلہ، گجراتی، مراٹھی، تمل، ملیالم وغیرہ کو اسٹیٹ لنگویج کی حیثیت دی جاتی ہے، اسی طرح کیا وجہ ہے کہ اردو کے مسئلے میں وہی پوزیشن اختیار نہیں کی گئی۔۔۔۔جس طرح دوسری زبانوں کے علاقے ہیں، جن میں کہ وہ زبانیں سرکاری حیثیت پاکر پھیلیں گی اور پھولیں گی اسی طرح اردو بھی سرکاری حیثیت پاکر پھلے گی پھولے گی۔ ۔۔۔جس طرح اور زبانوں کے پاس علاقے ہیں اسی طرح اردو کے لیے بھی ایک علاقہ ہونا چاہیے۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۲۵۴)
اسی بحث میں تقریر کرتے ہوئے شری پرشوتم داس اور سیٹھ گووند داس نے پاکستان اور مسلم لیگ کے بہانے اردو کی زبر دست مخالفت کی، مولانا نے کہا کہ ان کا اردو مخالف رویہ ملک اور قوم کے ساتھ ایوان جمہوریت کے لیے بھی باعث تکلیف ہوگا۔ مولانا نے ان شدت پسندوں کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’اردو کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرلینے کے باوجود کہ ہندی راشٹریہ بھاشا ہے اور پورے ملک کی سرکاری زبان تسلیم کرلی گئی ہے۔ آیا اردو زبان کو یا دوسری علاقائی زبانوں کو اس ملک میں پھلنے پھولنے کا حق ہے یا نہیں؟۔۔۔جو لوگ اردو کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں جیساکہ ٹنڈن جی کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے یا جو لوگ اس کو انگریزی کی طرح دیس نکالا دینا چاہتے ہیں، جیساکہ سیٹھ گووند داس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے، یہ دونوں باتیں اس ملک میں نہیں ہونے دی جائیں گی۔ان کا ڈٹ کرمقابلہ کیا جائے گا۔ ۔۔۔ٹنڈن جی کا یہ فرمانا کہ یوپی میں جو تحریک اردو کے بارے میں چلائی جا رہی ہے،وہ بھارتیہ کلچر کے خلاف فرقہ پرستی کی تحریک ہے اور دوسرے پاکستان یا دوسرے مسلم لیگی نظریے کو زندہ کرنا ہے، میرے نزدیک ہی نہیں بلکہ پورے ہاؤس کے نزدیک اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ میں ٹنڈن جی اور سیٹھ جی دونوں سے گزارش کروں گا کہ اردو کی تحریک کو جس طرح ہم لوگ چلا رہے ہیں، وہ صرف مسلمانوں کی نہیں ہے۔ وہ ہندو مسلمان سکھ عیسائی اور یوپی کے بسنے والے ہر آدمی کی، جو اردو سے تعلق رکھتا ہے، ملی جلی تحریک ہے۔‘‘(مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:ایک سیاسی مطالعہ ، ص:۴۰۴، ابو سلمان شاہ جہاں پوری، فرید بک ڈپو نئی دہلی، ۲۰۱۱ء)
فرقہ پرست عناصر تو اردو کو دیس نکالا دینے کے لیے کسی ادنی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور لچر سے لچر دلیل کا سہارا لینے کی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ انھوں نے تاریخی حقائق سے یک سر منہ پھیر لیا اورمشترکہ تہدیب و ثقافت کی زبان اردو کوہی پاکستان کا خالق قرار دے دیا۔اس وقت اتر پردیش میں جو اردو تحریک عروج پر تھی اور جس کے سالار قافلہ مولانا تھے،یہ لوگ اس کو ایک اور پاکستان کے مترادف کہتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ لوگ اردو کے مستقل وجود کو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے یہ عذرلنگ پیش کرتے تھے کہ اگر کسی ریاست میں اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دے دیا گیا تو اسی قسم کا مطالبہ ہر ریاست میں شروع ہوجائے گا جو ملک کی اجتماعیت اور اتحاد کے لیے شدید خطرہ کا اشارہ ہوگا۔ مولانا نے ان کی ان دلیلوں کو تار عنکبوت قرار دیتے ہوئے کہا :
’’اگر آئین کے مطابق بہار، مدھیہ پردیش، مدھیہ بھارت اور دوسری ریاستوں میں ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی اردو بولنے والوں کی اتنی بڑی مقدار ثابت ہوجائے، جس کی بنا پر اردو کو سرکاری طور پر تعلیمی اداروں اور سرکاری عدالتوں میں سہولتیں حاصل ہوں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ کیا علاقائی زبانوں سے پاکستان بن جایا کرتے ہیں، اتنی لچر بات شاید اس ہاؤس میں کبھی نہیں کہی گئی ہوگی۔‘‘(مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:ایک سیاسی مطالعہ، ص:۴۰۶)
مولانا روایتی قسم کے خشک مولوی نہ تھے، ان کو اردو زبان کی تاریخ، اس کا ہندستانی پس منظر اور اس کے عناصر ترکیبی کا بھی بھرپور علم تھا۔ چناں چہ جب بعض فرقہ پرست اور فسطائی دہنیت کے حامل ارکان پارلیمنٹ نے دسمبر ۱۹۵۵ء والی اسی لوک سبھا میں یہ اعتراص کیا کہ اردو زبان تو ہندستانی ہے، مگر اس کا رسم الخط تو ہندستانی نہیں، وہ دوسری غیر ملکی زبانوں سے مستعار ہے۔ تو مولانا نے بڑے ادب سے عرض کیا:
’’کسی زبان کے رسم الخط کا دوسری زبان کے رسم الخط سے فائدہ اٹھانا کوئی عیب نہیں۔ سندھی زبان نے دوسری زبانوں سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن جو رسم الخط آج ہم ہندستان میں اردو کے لیے استعمال کر رہے ہیں، وہ عربی رسم الخط نہیں ہے۔ عربی رسم الخط سے ہم نے فائدہ ضرور اٹھایا ہے لیکن اس سے فرق پیدا کردیا ہے، جو عربی کا رسم الخط ہے اس کو نسخ کہتے ہیں اور جو اردو کا رسم الخط ہے اس کو نستعلیق کہتے ہیں۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۵)
مولانا اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے مختلف ریاستوں میں بھی مہم چلاتے تھے۔ جب سہ لسانی فارمولے کی آڑ میں ریاست اتر پردیش میں اردو کو ختم کرنے کی سازش ہونے لگی تواس وقت مولانا امریکہ میں زیر علاج تھے۔ یہ سن کر مولانا بے چین ہوگئے اور انھوں نے بستر علالت سے وزیر اعلی شری سی، بی گپتا کو تنبیہی خط لکھا اور اس کی ایک نقل وزیر اعظم پنڈت نہرو کو بھی بھیجی، جنھوں نے اس خط کا زبردست نوٹس لیا اور اس کا جواب دے کر مولانا کو مطمئن کیا۔
مولانا نے صرف پارلیمنٹ کی چہار دیواری میں ہی نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی، جمعیۃ علماء ہند اور مختلف قومی و ملی اور لسانی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے اردو کے حقوق کے تحفظ اور اس کی بازیابی کے لیے انتھک جدو جہد کی۔۱۹۵۰ء میں مولانا انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کی مجلس عاملہ میں شامل ہوئے اور ۱۲؍ سال تک تمام تر ضعف کے با وجود اس کی ہر میٹینگ اور اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔ مجلس عاملہ کی آخری میٹینگ منعقدہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۶۱ء میں بھی وہ بخار اور کھانسی کی شدید حالت میں کمبل لپیٹ کر شریک ہوئے۔ یہ تھا مولانا کا ارود کی خدمت کا جذبہ۔پارلیمنٹ کے باہر انھوں نے اردو کے حق کے لیے جو کام کیے اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے۔
۲۲؍مئی ۱۹۵۱ء کو انجمن ترقی اردو کے ایک وفد کے ہمراہ اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی شکایت لے کر مولانا سیوہاروی یوپی کے وزیر تعلیم سمپورنا نند سے ملے، اس وفد میںمولانا کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر حسین اور قاضی عبد الغفار بھی شریک تھے۔
۲۲-۲۳؍دسمبر ۱۹۵۱ء کو ڈاکٹر ذاکر حسین کی صدارت میں لکھنؤ میں جو کل ہند اردو کانفرنس ہوئی تھی، جس میںاردو کے قانونی حقوق کی بازیابی کے لیے ۲۰؍ لاکھ دستخط کی مہم کا فیصلہ ہواتھا، اس مہم کو انجام تک پہنچانے میں مولانا کا ہی بیش تر حصہ تھا۔اور جب جمعیتی کارکنان وغیرہ کی مدد سے ۲۰؍لاکھ دست خط پورے ہوگئے، تو پھر ۲۵-۲۶؍جولائی ۱۹۵۳ء کو لکھنؤ میں ہی اردو کی دوسری کل ہند کانفرنس ہوئی اور دستخطی مہم کی روداد صدر جمہوریۂ ہند کو پیش کرنے کا منصوبہ طے پایا، مولانا اس میں بھی پیش پیش رہے۔
۲۱-۲۲؍مارچ ۱۹۵۲ء کو اجمیر میں جو کل ہند کانفرنس قاضی عبد الغفار کی صدارت میں ہوئی، اس کا افتتاح مولانا نے ہی کیا۔
۱۵؍ فروی ۱۹۵۴ء کو انجمن ترقی اردو ہندکا ایک وفد ڈاکٹر ذاکر حسین کی سرکردگی میں صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد سے ملا اور یوپی میں اردو کو علاقائی زبان قرار دینے کے لیے ۲۰؍لاکھ دست خط کا گراں بار ریکارڈ انھیں سونپا گیا، اس میں دوسرے سربراہان ہندکے ساتھ مولانا بھی شریک تھے۔ملاقات کے بعد دوسرے روز وفد کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین اور پنڈت کشن پرشاد کول کے علاوہ مولانا نے بھی پریس والوں سے بات کی۔
۴؍ اگست ۱۹۵۶ء کو مولانا نے جے پور پہنچ کر راجستھان کے وزیر تعلیم اور ڈائریکٹر تعلیمات سے ملاقات کرکے راجستھان کے اسکولوں میں اردو کو نظر انداز کیے جانے کی شکایت کی۔
۱۵؍فروری ۱۹۵۸ء کو دہلی میں کل ہند اردو کانفرنس ڈاکٹر تارا چند کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس کا افتتاح پنڈت نہرو نے کیا اور مولانا آزاد نے اپنی زندگی کی آخری تقریربھی یہیں کی، اس کانفرنس کے منتظم اور صدر مجلس استقبالیہ مولانا سیوہاروی ہی تھے، چندے کی فراہمی کا بہت زیادہ بوجھ بھی مولانا نے ہی برداشت کیا۔آل احمد سرور اس کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں مولانا کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اپنے سیاسی کاموں کا حرج کرکے اس کانفرنس کے انتظامات کیے۔ انھی کی وجہ سے دہلی کی کانفرنس اتنی شان دار ہوئی کہ پنڈت جی آئے۔ مولانا آزاد نے کانفرنس کو خطاب کیا اور ہماری تحریک کا اثر پورے ملک نے محسوس کیا۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۳۳)کانفرنس کے بعد ۲۹؍ اپریل ۱۹۵۸ء کو نئی دہلی میں انجمن ترقی اردو کا دوسرا وفد دوسری بار صدر جمہوریہ سے ملا، دوسرے قائدین کے ساتھ مولانا اس میں بھی پیش پیش تھے۔
مولانا سیوہاروی نے بہت سے شان دار مشاعرے بھی کروائے۔دہلی اور اطراف دہلی میں منعقد ہونے والے اردو کے درجنوں مشاعروں میں شرکت کی۔ شعرا کے مابین معاصرانہ چشمک کے نتیجے میں جو ناچاقی اور کشاکش جنم لیتی ہے، اس کو ختم کرانے میں بھی مولانا ثالثی کا رول ادا کرتے تھے۔ اور دونوں متحارب گروپ کو اپنی خوش کلامی اور شیریں بیانی سے شیر و شکر کر دیتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ لال قلعہ کے تاریخی مشاعرے میں پیش آیا کہ اس میں معروف انقلابی شاعر جوش ملیح آبادی نے اپنی نظم میں سیاسی حالات پر تنقید کرڈالی، جس کے جواب میں ایک شاعر نے جوش صاحب کے خلاف قطعہ پڑھ دیا،جو کسی بھی طرح موزوں نہ تھا۔ جب منتظمین میں تنازع نے جنم لیا، مولانا نے حسن تدبیر سے ثالثی کرکے اس کو ختم کرایا۔
مولانا نے قولا و عملا ہر اعتبار سے مظلوم اردو زبان کو ہندستان میں لسانی نقشے میں مناسب جگہ دلانے کے لیے کوشش کی۔ اردو کی خدمت کا جدبہ مولانا کی رگوں میں خون بن کر گردش کرتا تھا۔ مولانا اردو کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے کتنے متفکر اور کوشاں رہتے تھے کہ اس وقت کے اردو داں اور پروفیسر حضرات بھی مولانا کی اس زبردست جدو جہد کے مداح بن گئے تھے۔ چناں چہ اس وقت کے انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری اور مشہور ادیب و ناقد آل احمد سرور مولانا کی اردو نوازی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اردو کی تحریک میں مولانا لیڈر کی حیثیت سے نہیں، سپاہی کی حیثیت سے انجمن کا کام کرتے تھے۔جہاں مولاناکی ضرورت محسوس ہوئی بھیج دیا جہاں دقت ہوئی مولانا نے سلجھا دی، جہاں اختلاف ہوا مولانا کی وجہ سے دور ہوگیا۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۳۲)
اردو زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے مولانا کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انھیں کسی ایک مضمون میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ اس موضوع پر ریسرچ و تحقیق کی ضرورت ہے۔ مولانا نے صرف سیاست کے اسٹیج سے ہی اردو زبان و ادب کی خدمت نہیں کی، بلکہ وہ سیاست کے جھمیلوں سے الگ ہوکر تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی جاری رکھتے تھے۔مولانا نے اردو زبان میں گراں قدر معلوماتی اور تاریخی کتابیں تالیف کرکے بھی اردو زبان کے گیسوئے برہم کو سنوارا ہے۔ ان کی تحریریں نرگسی عناصر سے نہیں، بلکہ حققیت و واقعیت اور اصلیت و صداقت کے عناصر سے لبریز ہوتی تھیں۔ وہ صاف، سلیس اور سادہ نثر لکھتے تھے۔ ان کے جملے انتہائی مختصر مگر بڑے بامعنی، چست اور ادبیت سے لبریز ہوتے تھے۔ اگر وہ میدان سیاست سے الگ رہ کر صرف قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ استورا رکھتے ، تو وہ آج اردو کے کثیر التصانیف مصنفین میں شمار ہوتے۔مولانا کی اردو نوازی سے اہل علم و ادب کا بڑا حلقہ نا آشنا ہے۔ جس اردو زبان کے لیے انھوں نے دن رات دیوانہ وار کام کیا، اسی زبان کی جب علاقائی اور قومی تاریخ لکھی گئی تو مولانا کو بالکل نظر انداز کیا گیا ۔ اردو اکادمی دہلی نے ’دلی والے‘ کے عنوان سے جو تین جلدیں شائع کی ہیں، اس کی دوسری جلد میں مولانا کا بھی دکر کیا گیا ہے، مگر یہ مصمون بڑا تشنہ اور ناقص ہے۔ مولانا کی اردو خدمات کے تعلق سے ایک جملہ بھی نہیں لکھا گیا۔حیرت کا مقام ہے کہ مولانا کی زندگی پر اب تک کوئی باصابطہ تصنیف نہیں ملتی، بس جمعیۃ کا وہ خصوصی نمبر ملتا ہے جس میں معاصرین کے تأثراتی قسم کے مضامین جمع کر دیے گئے ہیں۔ یا مولانا سلمان شاہ جہاں پوری کی کتاب مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی: ایک سیاسی مطالعہ ملتا ہے، جو مختلف مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے، ضرورت ہے کہ کوئی اردو داں یا مدرسے کا کوئی فاضل ہی اس خالی میدان میں آئے اور کوئی سوانحی کتاب لکھ کر اس خلا کو پر کردے۔ تاکہ ۵۰؍ سال بعد ہی سہی علمی اور ادبی دنیا میں مولانا کے نام اور کام سے شناسائی کا سلسلہ شروع ہوسکے۔ اسلاف فراموشی کے مرض پر قابو پانا صروری ہے، ورنہ نسل نو ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔٭٭٭(بصیرت فیچرسروس)
*ABRAR AHMAD
ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL
JNU NEW DELHI 110067
MOB:9910509702
email:abrarahmadijravi@gmail.co
بیسویں صدی کے مشہور عالم دین ، مجاہد آزادی اور سیاسی رہ نمامولانا حفظ الرحمن سیوہاروی عالمی اسلامی درس گاہ دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ تھے۔ انھیں مایہ نازمحدث ، فخر زمانہ علامہ انور شاہ کشمیری کا شرف تلمذ حاصل تھا۔ رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعدانھوں نے بھی اپنے اسلاف اور اساتذہ کے نقش قدم پر تدریسی زندگی اختیار کی، مگر شاید یہ خالق کائنات کو مقصود نہ تھا، مولانا سیو ہاروی توپوری امت مسلمہ کی سماجی اور سیاسی اصلاح کے لیے پیدا ہوئے تھے، اس لیے وہ صرف واجبی تعلیم تک اور صرف مدارس کی چہار دیواری میں محصور ہوکر نہ رہے،انھوں نے قصہ قدیم و جدید کو دلیل کم نظری تصور کیا، انھوں نے علم و فن کی صاف ستھری ہواؤوں کے استقبال لیے اپنے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھیں،میدان سیاست میں بھی طبع آزمائی کی، انگریزوں کے چنگل سے وطن عزیز کو آزاد کرانے کے لیے جنگ آزادی میں حصہ لیا، تقسیم ہند کے بعد، فرقہ وارانہ فسادات میں دلی والوں پر جو قیامت ٹوٹی، اس الم ناک موقع پر مولانا دہلی والوں کے لیے شجر سایہ دار بن کر نمودار ہوئے، ایک وفا دار سپاہی کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ کر فرقہ پرستوں کا مقابلہ کیا، اپنی زبر دست قومی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں دستور ساز اسمبلی میں ممبر منتخب ہوئے، جمہوری اور سیکولر آئین وضع کرنے میں خاص رول ادا کیا، ملک میں جمہوریت نافذ ہوئی اور جو پہلی پارلیمنٹ بنی اس میں مولانا بھی ممبر پارلیمنٹ بنے، انھوں نے تین میقات کے لیے امروہہ کے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور تینوں ہی بار مسلمانوں کے حقوق کی بحالی اور حکومت کو دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے تعلیمی، معاشی اور مذہبی حقوق کی بحالی کے لیے تو کوشش کی ہی، تقسیم ہند کے زخموں سے چور اور سیاسی تعصب کا شکاراردو زبان کے لیے بھی انھوں نے جی توڑ کوشش کی۔ انھوں نے تینوں میعاد میں نہ صرف ایوان پارلیمنٹ کے اندر ، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی اردو کے حقوق کی بحالی کے لیے مجاہدہ ومباحثہ کیا۔ انھوں نے اردو کو دیس نکالا دینے کی کوششوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پاکستان کی آڑ میں جو فاشسٹ عناصر اردو کو اس کے لسانی حقوق سے محروم کرنے کے سیاسی حربے آزمایا کرتے تھے، ان تمام کا منہ توڑ جواب دیا۔
آزادی اور تقسیم ہندسے قبل تک ملک کی قومی زبان کے تعلق سے کانگریس اور گاندھی جی دونوں کا نظریہ واضح تھاکہ آزاد ہندستان کی زبان وہ عام فہم ہندستانی ہوگی ، جو شمالی ہندکے بڑے خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کا رسم الخط اردو اور دیو ناگری دونوں ہوگا۔ لیکن ملک کی آزادی اور تقسیم ہند کے بعد سارے مسلمہ اصول اور ماضی کے سارے وعدے ارادے کالعدم کردیے گئے اور اس مجوزہ عام فہم ہندستانی کی جگہ ہندی زبان کو قومی زبان بنانے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ یکم دسمبر ۱۹۴۹ء کو کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی میں جب قومی زبان کا مسئلہ درپیش ہوا ، تو کانگریس اپنے سابقہ قول و قرار سے انحراف کرتے ہوئے ، شدت پسندوں کے سامنے سر بسجود تھی اور ہندی کو قومی زبان بنانے پر تلی ہوئی تھی، بہت کم لوگ گاندھی جی کے نظریے سے متفق تھے، مولانا سیو ہاروی بھی انھی لوگوں میں سے ایک تھے، جو گاندھی جی کے نظریے کو ہی صحیح مانتے تھے۔ مولانا کے علاوہ ، مسٹر رفیع احمد قدوائی اور مولانا کے دست راست آں جہانی خورشیدی لال ہندستانی کی حمایت کر رہے تھے۔ مولانا صرف اکیلے ہی نہیں، بلکہ اپنے ایک ایک حامی کو ڈھونڈ کر لاتے اور اس حوالے سے اتنے مضطرب اوربے چین تھے کہ کہیںکانگریس نام نہاد اکثریت کے سامنے اپنے سابقہ نظریے سے منحرف نہ ہوجائے۔ لیکن جب عددی اکثریت کے ساتھ ہندستانی کو نظر انداز کرکے ہندی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا، تو مولانا سخت ملول اور رنجیدہ تھے، انھوں نے اس پر زبردست احتجاج کیا۔اور قومی زبان کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے کانگریس کو خوب کھری کھوٹی سنائی، انھوں نے کہا:
’’تیس سال تک کانگریس کے پلیٹ فارم سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس ملک کی زبان ہندستانی ہوگی ،جو فرانٹیر تک شمالی ہندستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور زبان کا رسم الخط ہندی اور اردو ہوگا۔ مہاتما گاندھی بھی آخر تک اسی زبان کے حامی رہے، لیکن آج میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ ہم نے کانگریس اور مہاتما گاندھی کے اس اصول کو ٹھکرادیا اور صرف ہندی زبان کو ملک کی قومی زبان بنانے پر زور دینے لگے۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ، مجاہد ملت نمبر، ص:۲۴۸، ۱۹۶۳ء)
مولانا کی تقریر سے پہلے چند متشدد لوگوں نے ہندی کی حمایت میں جو دلیل دی تھی، مولانا نے ان کی دلیلوں کو شواہد سے مسترد کرتے ہوئے گاندھی جی کے حوالے سے کہا:
’’۳۰؍جنوری ۱۹۴۸ء کے بھیانک حادثے سے جب کہ مہاتما گاندھی جی ہم سے چھین لیے گئے، تین روز قبل انھوں نے دوران گفتگو مجھ سے فرمایا تھا کہ اب امن و امان ہوتا جارہا ہے، جس طرح تم لوگوں نے قیام امن کے سلسلے میں میری امداد کی، اسی طرح تمھیں ہندستانی کے پرچار میں بھی ساتھ دینا ہوگا۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۸)
مولانا سے پہلے سیٹھ گوووند داس نے ہندی کی حمایت اور اردو کی مخالفت میں تقریر کی تھی، مولانا اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’سیٹھ گووند داس نے ابھی پہلے کہا کہ اردو میں ہندستان کی چیزوں کے مقابلے میں غیر ملکی چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے، یہ قطعی طور پر غلط ہے۔ اور استدلال میں محسن کاکوروی کا یہ شعر پیش کرتے ہیں کہ
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
بادلوں پر لیے پھرتی ہے ہوا گنگا جل
اس میںجتنے مقامات کا ذکر ہے وہ سب ہندستانی بلکہ خالص ہندو مذہب کے ہیں۔ اس میں نہ تو مدینہ کا دکر ہے اور نہ مکہ کا، نہ آب زم زم کا۔
سیٹھ گووند داس نے اپنی تقریر میں یہ اعتراض بھی کیا تھا کہ اردو کے لیے اس ملک میں اس لیے جائے قرار نہیں مل سکتی کہ کسی ایک ملک میں دو تہذیبوں کا ساتھ رہنا ممکن نہیں۔ در اصل گووند داس زبان کو تہذیب کی بنیاد منوانے پر تلے ہوئے تھے۔مولانا نے زبان کو تہذیب کی بنیاد قررا دینے کی منطق کو دلائل سے رد کیا اورورچھوٹے سے ملک سوئزر لینڈ کی مثال دیتے ہوئے ،جہاں چار زبانوں کو سرکاری حیثیت حاصل ہے، کہا:
’’اگر تہذیب اور سنسکرتی کی بنیاد زبان پر ہے تو ہندستان میں ایک درجن سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ایک سنسکرتی کے لیے ان سب زبانوں کو ملیا میٹ کردینا چاہیے۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۹)
دسمبر ۱۹۵۵ء میں لوک سبھا میں حد بندی کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ پر بحث میں مولانا نے بھی حصہ لیا۔ اور انھوں نے پارلیمنٹ سے یہ اپیل کی کہ وہ دہلی، یوپی اور بہار میں اردو کو علاقائی زبان کی حیثیت سے تسلیم کرلے۔ انھوں نے یہ کہا کہ جس طرح جنوبی ہندستان میں زبان کے مسئلے کو اہمیت دی گئی ہے، شمالی ہندستان میں بھی اس کو اہمیت دی جائے۔ مولانا اس کے بھی حامی تھے کہ اگر ایک اسٹیٹ میں دو یا تین زبانیں بھی ہیں تو ان سب کو سرکاری حیثیت دی جائے۔ اردو کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اگر اردو کو کوئی علاقہ دیا جائے گا تو اس سے ہندی کو نقصان پہنچے گا، اس پر مجھے اختلاف ہے۔ ہماری چودہ زبانیں ہیں، جس طرح بنگلہ، گجراتی، مراٹھی، تمل، ملیالم وغیرہ کو اسٹیٹ لنگویج کی حیثیت دی جاتی ہے، اسی طرح کیا وجہ ہے کہ اردو کے مسئلے میں وہی پوزیشن اختیار نہیں کی گئی۔۔۔۔جس طرح دوسری زبانوں کے علاقے ہیں، جن میں کہ وہ زبانیں سرکاری حیثیت پاکر پھیلیں گی اور پھولیں گی اسی طرح اردو بھی سرکاری حیثیت پاکر پھلے گی پھولے گی۔ ۔۔۔جس طرح اور زبانوں کے پاس علاقے ہیں اسی طرح اردو کے لیے بھی ایک علاقہ ہونا چاہیے۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۲۵۴)
اسی بحث میں تقریر کرتے ہوئے شری پرشوتم داس اور سیٹھ گووند داس نے پاکستان اور مسلم لیگ کے بہانے اردو کی زبر دست مخالفت کی، مولانا نے کہا کہ ان کا اردو مخالف رویہ ملک اور قوم کے ساتھ ایوان جمہوریت کے لیے بھی باعث تکلیف ہوگا۔ مولانا نے ان شدت پسندوں کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’اردو کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرلینے کے باوجود کہ ہندی راشٹریہ بھاشا ہے اور پورے ملک کی سرکاری زبان تسلیم کرلی گئی ہے۔ آیا اردو زبان کو یا دوسری علاقائی زبانوں کو اس ملک میں پھلنے پھولنے کا حق ہے یا نہیں؟۔۔۔جو لوگ اردو کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں جیساکہ ٹنڈن جی کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے یا جو لوگ اس کو انگریزی کی طرح دیس نکالا دینا چاہتے ہیں، جیساکہ سیٹھ گووند داس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے، یہ دونوں باتیں اس ملک میں نہیں ہونے دی جائیں گی۔ان کا ڈٹ کرمقابلہ کیا جائے گا۔ ۔۔۔ٹنڈن جی کا یہ فرمانا کہ یوپی میں جو تحریک اردو کے بارے میں چلائی جا رہی ہے،وہ بھارتیہ کلچر کے خلاف فرقہ پرستی کی تحریک ہے اور دوسرے پاکستان یا دوسرے مسلم لیگی نظریے کو زندہ کرنا ہے، میرے نزدیک ہی نہیں بلکہ پورے ہاؤس کے نزدیک اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ میں ٹنڈن جی اور سیٹھ جی دونوں سے گزارش کروں گا کہ اردو کی تحریک کو جس طرح ہم لوگ چلا رہے ہیں، وہ صرف مسلمانوں کی نہیں ہے۔ وہ ہندو مسلمان سکھ عیسائی اور یوپی کے بسنے والے ہر آدمی کی، جو اردو سے تعلق رکھتا ہے، ملی جلی تحریک ہے۔‘‘(مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:ایک سیاسی مطالعہ ، ص:۴۰۴، ابو سلمان شاہ جہاں پوری، فرید بک ڈپو نئی دہلی، ۲۰۱۱ء)
فرقہ پرست عناصر تو اردو کو دیس نکالا دینے کے لیے کسی ادنی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور لچر سے لچر دلیل کا سہارا لینے کی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ انھوں نے تاریخی حقائق سے یک سر منہ پھیر لیا اورمشترکہ تہدیب و ثقافت کی زبان اردو کوہی پاکستان کا خالق قرار دے دیا۔اس وقت اتر پردیش میں جو اردو تحریک عروج پر تھی اور جس کے سالار قافلہ مولانا تھے،یہ لوگ اس کو ایک اور پاکستان کے مترادف کہتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ لوگ اردو کے مستقل وجود کو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے یہ عذرلنگ پیش کرتے تھے کہ اگر کسی ریاست میں اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دے دیا گیا تو اسی قسم کا مطالبہ ہر ریاست میں شروع ہوجائے گا جو ملک کی اجتماعیت اور اتحاد کے لیے شدید خطرہ کا اشارہ ہوگا۔ مولانا نے ان کی ان دلیلوں کو تار عنکبوت قرار دیتے ہوئے کہا :
’’اگر آئین کے مطابق بہار، مدھیہ پردیش، مدھیہ بھارت اور دوسری ریاستوں میں ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی اردو بولنے والوں کی اتنی بڑی مقدار ثابت ہوجائے، جس کی بنا پر اردو کو سرکاری طور پر تعلیمی اداروں اور سرکاری عدالتوں میں سہولتیں حاصل ہوں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ کیا علاقائی زبانوں سے پاکستان بن جایا کرتے ہیں، اتنی لچر بات شاید اس ہاؤس میں کبھی نہیں کہی گئی ہوگی۔‘‘(مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:ایک سیاسی مطالعہ، ص:۴۰۶)
مولانا روایتی قسم کے خشک مولوی نہ تھے، ان کو اردو زبان کی تاریخ، اس کا ہندستانی پس منظر اور اس کے عناصر ترکیبی کا بھی بھرپور علم تھا۔ چناں چہ جب بعض فرقہ پرست اور فسطائی دہنیت کے حامل ارکان پارلیمنٹ نے دسمبر ۱۹۵۵ء والی اسی لوک سبھا میں یہ اعتراص کیا کہ اردو زبان تو ہندستانی ہے، مگر اس کا رسم الخط تو ہندستانی نہیں، وہ دوسری غیر ملکی زبانوں سے مستعار ہے۔ تو مولانا نے بڑے ادب سے عرض کیا:
’’کسی زبان کے رسم الخط کا دوسری زبان کے رسم الخط سے فائدہ اٹھانا کوئی عیب نہیں۔ سندھی زبان نے دوسری زبانوں سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن جو رسم الخط آج ہم ہندستان میں اردو کے لیے استعمال کر رہے ہیں، وہ عربی رسم الخط نہیں ہے۔ عربی رسم الخط سے ہم نے فائدہ ضرور اٹھایا ہے لیکن اس سے فرق پیدا کردیا ہے، جو عربی کا رسم الخط ہے اس کو نسخ کہتے ہیں اور جو اردو کا رسم الخط ہے اس کو نستعلیق کہتے ہیں۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۵)
مولانا اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے مختلف ریاستوں میں بھی مہم چلاتے تھے۔ جب سہ لسانی فارمولے کی آڑ میں ریاست اتر پردیش میں اردو کو ختم کرنے کی سازش ہونے لگی تواس وقت مولانا امریکہ میں زیر علاج تھے۔ یہ سن کر مولانا بے چین ہوگئے اور انھوں نے بستر علالت سے وزیر اعلی شری سی، بی گپتا کو تنبیہی خط لکھا اور اس کی ایک نقل وزیر اعظم پنڈت نہرو کو بھی بھیجی، جنھوں نے اس خط کا زبردست نوٹس لیا اور اس کا جواب دے کر مولانا کو مطمئن کیا۔
مولانا نے صرف پارلیمنٹ کی چہار دیواری میں ہی نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی، جمعیۃ علماء ہند اور مختلف قومی و ملی اور لسانی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے اردو کے حقوق کے تحفظ اور اس کی بازیابی کے لیے انتھک جدو جہد کی۔۱۹۵۰ء میں مولانا انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کی مجلس عاملہ میں شامل ہوئے اور ۱۲؍ سال تک تمام تر ضعف کے با وجود اس کی ہر میٹینگ اور اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔ مجلس عاملہ کی آخری میٹینگ منعقدہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۶۱ء میں بھی وہ بخار اور کھانسی کی شدید حالت میں کمبل لپیٹ کر شریک ہوئے۔ یہ تھا مولانا کا ارود کی خدمت کا جذبہ۔پارلیمنٹ کے باہر انھوں نے اردو کے حق کے لیے جو کام کیے اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے۔
۲۲؍مئی ۱۹۵۱ء کو انجمن ترقی اردو کے ایک وفد کے ہمراہ اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی شکایت لے کر مولانا سیوہاروی یوپی کے وزیر تعلیم سمپورنا نند سے ملے، اس وفد میںمولانا کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر حسین اور قاضی عبد الغفار بھی شریک تھے۔
۲۲-۲۳؍دسمبر ۱۹۵۱ء کو ڈاکٹر ذاکر حسین کی صدارت میں لکھنؤ میں جو کل ہند اردو کانفرنس ہوئی تھی، جس میںاردو کے قانونی حقوق کی بازیابی کے لیے ۲۰؍ لاکھ دستخط کی مہم کا فیصلہ ہواتھا، اس مہم کو انجام تک پہنچانے میں مولانا کا ہی بیش تر حصہ تھا۔اور جب جمعیتی کارکنان وغیرہ کی مدد سے ۲۰؍لاکھ دست خط پورے ہوگئے، تو پھر ۲۵-۲۶؍جولائی ۱۹۵۳ء کو لکھنؤ میں ہی اردو کی دوسری کل ہند کانفرنس ہوئی اور دستخطی مہم کی روداد صدر جمہوریۂ ہند کو پیش کرنے کا منصوبہ طے پایا، مولانا اس میں بھی پیش پیش رہے۔
۲۱-۲۲؍مارچ ۱۹۵۲ء کو اجمیر میں جو کل ہند کانفرنس قاضی عبد الغفار کی صدارت میں ہوئی، اس کا افتتاح مولانا نے ہی کیا۔
۱۵؍ فروی ۱۹۵۴ء کو انجمن ترقی اردو ہندکا ایک وفد ڈاکٹر ذاکر حسین کی سرکردگی میں صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد سے ملا اور یوپی میں اردو کو علاقائی زبان قرار دینے کے لیے ۲۰؍لاکھ دست خط کا گراں بار ریکارڈ انھیں سونپا گیا، اس میں دوسرے سربراہان ہندکے ساتھ مولانا بھی شریک تھے۔ملاقات کے بعد دوسرے روز وفد کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین اور پنڈت کشن پرشاد کول کے علاوہ مولانا نے بھی پریس والوں سے بات کی۔
۴؍ اگست ۱۹۵۶ء کو مولانا نے جے پور پہنچ کر راجستھان کے وزیر تعلیم اور ڈائریکٹر تعلیمات سے ملاقات کرکے راجستھان کے اسکولوں میں اردو کو نظر انداز کیے جانے کی شکایت کی۔
۱۵؍فروری ۱۹۵۸ء کو دہلی میں کل ہند اردو کانفرنس ڈاکٹر تارا چند کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس کا افتتاح پنڈت نہرو نے کیا اور مولانا آزاد نے اپنی زندگی کی آخری تقریربھی یہیں کی، اس کانفرنس کے منتظم اور صدر مجلس استقبالیہ مولانا سیوہاروی ہی تھے، چندے کی فراہمی کا بہت زیادہ بوجھ بھی مولانا نے ہی برداشت کیا۔آل احمد سرور اس کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں مولانا کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اپنے سیاسی کاموں کا حرج کرکے اس کانفرنس کے انتظامات کیے۔ انھی کی وجہ سے دہلی کی کانفرنس اتنی شان دار ہوئی کہ پنڈت جی آئے۔ مولانا آزاد نے کانفرنس کو خطاب کیا اور ہماری تحریک کا اثر پورے ملک نے محسوس کیا۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۳۳)کانفرنس کے بعد ۲۹؍ اپریل ۱۹۵۸ء کو نئی دہلی میں انجمن ترقی اردو کا دوسرا وفد دوسری بار صدر جمہوریہ سے ملا، دوسرے قائدین کے ساتھ مولانا اس میں بھی پیش پیش تھے۔
مولانا سیوہاروی نے بہت سے شان دار مشاعرے بھی کروائے۔دہلی اور اطراف دہلی میں منعقد ہونے والے اردو کے درجنوں مشاعروں میں شرکت کی۔ شعرا کے مابین معاصرانہ چشمک کے نتیجے میں جو ناچاقی اور کشاکش جنم لیتی ہے، اس کو ختم کرانے میں بھی مولانا ثالثی کا رول ادا کرتے تھے۔ اور دونوں متحارب گروپ کو اپنی خوش کلامی اور شیریں بیانی سے شیر و شکر کر دیتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ لال قلعہ کے تاریخی مشاعرے میں پیش آیا کہ اس میں معروف انقلابی شاعر جوش ملیح آبادی نے اپنی نظم میں سیاسی حالات پر تنقید کرڈالی، جس کے جواب میں ایک شاعر نے جوش صاحب کے خلاف قطعہ پڑھ دیا،جو کسی بھی طرح موزوں نہ تھا۔ جب منتظمین میں تنازع نے جنم لیا، مولانا نے حسن تدبیر سے ثالثی کرکے اس کو ختم کرایا۔
مولانا نے قولا و عملا ہر اعتبار سے مظلوم اردو زبان کو ہندستان میں لسانی نقشے میں مناسب جگہ دلانے کے لیے کوشش کی۔ اردو کی خدمت کا جدبہ مولانا کی رگوں میں خون بن کر گردش کرتا تھا۔ مولانا اردو کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے کتنے متفکر اور کوشاں رہتے تھے کہ اس وقت کے اردو داں اور پروفیسر حضرات بھی مولانا کی اس زبردست جدو جہد کے مداح بن گئے تھے۔ چناں چہ اس وقت کے انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری اور مشہور ادیب و ناقد آل احمد سرور مولانا کی اردو نوازی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اردو کی تحریک میں مولانا لیڈر کی حیثیت سے نہیں، سپاہی کی حیثیت سے انجمن کا کام کرتے تھے۔جہاں مولاناکی ضرورت محسوس ہوئی بھیج دیا جہاں دقت ہوئی مولانا نے سلجھا دی، جہاں اختلاف ہوا مولانا کی وجہ سے دور ہوگیا۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۳۲)
اردو زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے مولانا کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انھیں کسی ایک مضمون میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ اس موضوع پر ریسرچ و تحقیق کی ضرورت ہے۔ مولانا نے صرف سیاست کے اسٹیج سے ہی اردو زبان و ادب کی خدمت نہیں کی، بلکہ وہ سیاست کے جھمیلوں سے الگ ہوکر تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی جاری رکھتے تھے۔مولانا نے اردو زبان میں گراں قدر معلوماتی اور تاریخی کتابیں تالیف کرکے بھی اردو زبان کے گیسوئے برہم کو سنوارا ہے۔ ان کی تحریریں نرگسی عناصر سے نہیں، بلکہ حققیت و واقعیت اور اصلیت و صداقت کے عناصر سے لبریز ہوتی تھیں۔ وہ صاف، سلیس اور سادہ نثر لکھتے تھے۔ ان کے جملے انتہائی مختصر مگر بڑے بامعنی، چست اور ادبیت سے لبریز ہوتے تھے۔ اگر وہ میدان سیاست سے الگ رہ کر صرف قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ استورا رکھتے ، تو وہ آج اردو کے کثیر التصانیف مصنفین میں شمار ہوتے۔مولانا کی اردو نوازی سے اہل علم و ادب کا بڑا حلقہ نا آشنا ہے۔ جس اردو زبان کے لیے انھوں نے دن رات دیوانہ وار کام کیا، اسی زبان کی جب علاقائی اور قومی تاریخ لکھی گئی تو مولانا کو بالکل نظر انداز کیا گیا ۔ اردو اکادمی دہلی نے ’دلی والے‘ کے عنوان سے جو تین جلدیں شائع کی ہیں، اس کی دوسری جلد میں مولانا کا بھی دکر کیا گیا ہے، مگر یہ مصمون بڑا تشنہ اور ناقص ہے۔ مولانا کی اردو خدمات کے تعلق سے ایک جملہ بھی نہیں لکھا گیا۔حیرت کا مقام ہے کہ مولانا کی زندگی پر اب تک کوئی باصابطہ تصنیف نہیں ملتی، بس جمعیۃ کا وہ خصوصی نمبر ملتا ہے جس میں معاصرین کے تأثراتی قسم کے مضامین جمع کر دیے گئے ہیں۔ یا مولانا سلمان شاہ جہاں پوری کی کتاب مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی: ایک سیاسی مطالعہ ملتا ہے، جو مختلف مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے، ضرورت ہے کہ کوئی اردو داں یا مدرسے کا کوئی فاضل ہی اس خالی میدان میں آئے اور کوئی سوانحی کتاب لکھ کر اس خلا کو پر کردے۔ تاکہ ۵۰؍ سال بعد ہی سہی علمی اور ادبی دنیا میں مولانا کے نام اور کام سے شناسائی کا سلسلہ شروع ہوسکے۔ اسلاف فراموشی کے مرض پر قابو پانا صروری ہے، ورنہ نسل نو ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔٭٭٭(بصیرت فیچرسروس)
*ABRAR AHMAD
ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL
JNU NEW DELHI 110067
MOB:9910509702
email:abrarahmadijravi@gmail.co