Sunday, 19 January 2014

عوامی ترسیل کی زبان:حدود اور تقاضے

عوامی ترسیل کی زبان:حدود اور تقاضے

خیالات وتجربات، جذبات وتصورات، عقائد ونظریات، علوم وفنون، تفریحی مواد اور معلومات کی مصدقہ اشاعت کا نام ترسیل ہے۔ سامعین کی تعداد اور ترسیلی ہدف کے رقبے کے اعتبار سے ترسیل کی کئی قسمیں کی گئی ہیں، لیکن اس میں شہہ رگ کی حیثیت عوامی ترسیل کوہی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ماس میڈیا یا ذرائع ابلاغ کا نام لبوں پر آتا ہے، تو انسانی ذہن بلا ساختہ عوامی ترسیل کی طرف جست لگاتا ہے۔ ترسیل کے چھ اجزائے ترکیبی میں مرسل(سورس)، چینل، پیغام، اور مرسل الیہ (ریسیور) کو سنگ بنیاد کے درجے میں رکھا جاتا ہے ، کیوں کہ ان کے بغیر ترسیل کا عمل اپنی مکمل اور مؤثرصورت میں امکان کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ ان ترسیلی اجزاء میں زبان کا ذکر کہیں نہیں ہے، لیکن الاہم فالاہم کے اصول کی روشنی میں زبان کو ہمیں لا محالہ اولیت دینی پڑے گی،کیوں کہ زبان کے بغیر مروجہ ترسیلی نظام کی تکمیل دیوانے کا خواب بن کر رہ جائے گا۔ اشارات و کنایات، حرکات وسکنات، چہرے بشرے اور لمس وشعور بھی ترسیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں، مگر صرف چند مواقع پر۔ نہ صرف عوامی ترسیل، بلکہ تمام ادبی اصناف میں مکالمہ اور زبان کو نمایاں مقام دیا جاتا ہے۔
عوامی ترسیل کے عمل میں زبان کا معیار نہ صرف سامع وناظر کی تعلیمی صلاحیت، تہذیبی حدوداور عقائدی پابندیوں کو نظر میں رکھ کر کیا جاتا ہے، بلکہ ان کی عمر، ان کی جنس اور ان کے مخصوص مکتب فکرکو بھی محوری حیثیت دی جاتی ہے۔ کیوں کہ ترسیلی عمل میں صرف بات کہہ دینا ہی کافی نہیں، بات کا پہنچنا بھی ضروری ہے۔ بقول انجم عثمانی:
’’ جہاں بات دوسروں تک منتقل نہ ہونے پائے، وہاں ترسیل نہیں ہوگی۔ گویا ترسیل کے لیے مرسل الیہ بھی ضروری ہے۔اس طرح ترسیل ایک مشترک عمل ہے۔ ‘‘(ٹیلی ویژن نشریات، ص:۱۸)
وہ دن لد گئے جب ترسیل کی دنیا میں اخبارات کا ہی سکہ چلتا تھا اور مطبوعہ صحافت بلا شرکت غیرے منصب ابلاغ پر فائز تھی۔ جب خبروں کی کثرت، معلومات کے تنوع، عقائد ونظریات کی رنگا رنگی نے یہ شکایت کی کہ’ کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے ‘ تو ذرائع ابلاغ نے بھی اپنی قلمرو کی توسیع کرلی۔ پہلے تن تنہا اخبارات ہی ہماری ذہنی ، علمی اور ادبی ذوق کی تکمیل کا ذریعہ تھے، لیکن عہد حاضر کا جلوہ دیکھیے کہ اب ذرائع ابلاغ کے تخت حکومت پر اخبارات سے کہیں زیادہ برقی مواصلات: ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، موبائل اور سائبر اسپیس کا قبضہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم کسی خبر سے واقفیت کے لیے نوشت وخواند کی مطلوبہ صلاحیت کے ساتھ مشروط تھے، کیوں کہ ترسیلی ذرائع : اخبارات اور پمفلٹ ملفوظی نظام کے تابع تھے۔ اطلاعاتی انقلاب نے وہ کرشمہ دکھایا کہ اب ہم حرف شناسی کے بغیر دنیا کے اندر رونما ہونے والے واقعات، پاس پڑوس کی خبروں اور دوسروں کے خیالات سے واقف ہو سکتے ہیں اور اس پر اپنا رد عمل بھی ظاہر کر سکتے ہیں۔ سفر وحضر، بس، کار، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز میں یہاں تک کہ اپنے ڈراٹنگ روم میں بھی وسیع وعریض کائنات کا رنگا رنگ نظارہ کر سکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے نت نئی ترقیوں کے بل پر بہت سی پابندیوں اور پیچیدگیوں سے آزادی حاصل کرلی ہے، لیکن زبان ترسیل کا ایک ایسا عنصر ہے جس سے وہ کبھی آزاد نہیں رہ سکتے ۔ جس عہد میںمنہ سے نکلنے والے الفاظ نے تحریر کا منقش جامہ زیب تن نہیں کیا تھا، غیر لفظی ترسیل ممکن العمل تھا۔ اب بھی اشاروں اور کنایوں، جسم کے اتار چڑھاؤ سے ترسیل ممکن ہے، لیکن با معنی، مؤثر اور ہر کس وناکس کی قوت متخیلہ سے ہم آہنگ ترسیل کے لیے زبان کو محوری حیثیت حاصل ہے۔
زبان میں بڑی رنگا رنگی ہے۔ اظہار خیال کے مختلف پیرایے ہیں۔ زبان کے سلسلے میںملک، علاقے اور خطے کیا، ہر دس قدم پر دوسرے تقاضے دامن گیر ہوتے ہیں۔ اور عوامی ترسیل کی زبان تو دوسرے شعبئہ حیات کی زبان سے یکسر جدا ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان کے ادب میں اتنا تنوع ہوتا ہے کہ اس پر دسترس کی باگ ڈور جلدی قبضے میں نہیں آتی۔ اردو ادب کو ہی دیکھ لیجیے غزل کی زبان، دوسری اصناف ادب کو منھ چڑاتی ہے۔ افسانے اور ناول کی زبان کے دوسرے تقاضے ہیں اور ڈرامہ زبان کی کسی اور دنیا میں پرواز بھرتا ہے۔ قصیدے، مرثیے میں تو ادیب وقلم کار کو آزدای ہوتی ہے کہ وہ اپنے قلم، تخیل کی بلند سطح اور تخلیقی صلاحیتوںکا جوہر دکھائے، کیوں کہ وہ دربار اور شاہ وقت کی فرمائش پر خواص کے لیے لکھا جاتا ہے، لیکن جب عوامی اسٹیج کے لیے ڈرامہ یا کوئی پاپولر لٹریچر لکھا جائے تو وہاں قلم کو بڑا سنبھل کر کاغذ کے سینے پر چلانا پڑتا ہے ۔ یہ عوام کے لیے لکھا جاتا ہے جس کے لیے سادہ اور سہل عوامی زبان کا انتخاب ناگزیرہوجاتا ہے۔ سائنسی مضامین اور تکنیکی اصلاحات کی تعلیم کے لیے زبان کے نتخاب کا الگ الگ تقاضا ہے، علمی اور تحقیقی مباحث اپنا الگ مزاج رکھتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی زبان بھی اپنی نزاکتوں، لطافتوں کا پاس ولحاظ کرنے کے بعد ہی مؤثر ترسیل کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہاں نہ خالص دلی کی آراستہ پیراستہ بیگماتی زبان کا سکہ چل سکتا ہے، نہ فسانئہ عجائب کی مسجع اور مقفی داستان اور نہ پریم چند کے ہوری اور گوبر کی مخصوص دیہاتی اور غیر معیاری زبان۔ عوامی ترسیل کی مملکت میں باغ وبہار جیسی سادہ اور شگفتہ بولی ٹھولی ہی حکمرانی کا فرض ادا کرسکتی ہے۔ ایک اچھے مواصلات کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مطلوبہ قارئین کی ذہنی سطح ، ان کے مذاق، ان کی علمی استعداد کا خیال رکھے، بلکہ ان کے عقائد اور ان کے انفرادی رجحانات کا بھی خاصا مطالعہ رکھے۔ پیچیدہ پیغام سامعین کے لیے درد سر ثابت ہوتا ہے ۔ کسی پیغام کو سمجھنے میں اگر سامعین کو ذہنی مشقت کا بار اٹھانا پڑے تو وہ ترسیل بے اثر شمار ہو گی۔ زبان کے بے ڈھنگے پن، اس کے ابہام اور پیچیدگی سے ہی پیغام میں الجھاؤ اور پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے زبان کے استعمال کے وقت دماغ کے سارے دریچوں کو کھولے رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
عوامی ترسیل کی زبان کا کوئی بندھا ٹکا اصول نہیں ہے کہ اس کی روشنی میں سورسِ((Source اپنا پیغام آسانی سے مرتب کرلے ۔ ترسیلی زبان کے مطالبات زمانے کی نیرنگیوں کے ساتھ ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ ترسیل کی دنیا میں وہی صحافی زندہ رہ سکتا ہے جو زمانے کی نبض شناسی کے ساتھ قارئین کے مطالبات اور ان کے مزاج ومذاق کے اعتبار سے اپنی صحافتی ذمے داریوں میں تبدیلی لاتا رہے۔ اگر اس نے ایک بندھے ٹکے اصول کے حصارمیں اپنی صحافتی شخصیت کو مقید کر لیا تو وہ اس پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ ایک لفظ جملہ ایک اوسط درجے کے قاری کے لیے مفید مطلب ہوسکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہی لفظ اور جملہ دوسرے شخص کے لیے بھی اتنا ہی مفید اور کامیاب ترسیلی ذریعہ ثابت ہو۔ زبان کا مقصد اپنے خیالات سے دوسرو ں کو متأثر کرنا اور متعلقہ کیفیت کو دوسروں تک پہنچانا ہے، بقول پروفیسر شاہد حسین:
’’زبان کا بنیادی مقصد کسی اطلاع،مفہوم، خیال، تجربے، واقعات، کیفیت یا صورت حال کی پڑھنے یا سننے والوں تک ترسیل کرنا ہے۔ اگر کسی تحریر یا تقریر میں ایسی زبان استعمال کردی جائے جو اس کے قاری یا سامع کی سمجھ میں نہ آئے، تو وہ تحریر یا تقریر بے مقصد ہوجاتی ہے۔‘‘( ابلاغیات ، ص:۱۴۳)
ترسیل کی زبان نہ صرف اپنے قاری کے مزاج اور مذاق کے مطابق تغیرپذیر رہتی ہے، بلکہ ترسیل کے متنوع ذرائع کی بساط پر بھی وہ اپنا جوہر اسی وقت دکھاتی ہے جب اس ذریعہ ترسیل کی رعایت کی گئی ہو۔ اخبارات کی زبان الگ ہوتی ہے ، ریڈیو کی زبان اپنے مطالبات کی دنیا کہیں اور بساتی ہے اور ٹیلی ویژن کی آمد نے تصویری صحافت کو اتنا مقبول بنادیا ہے کہ اس کی نیرنگیوں کے حساب سے ہی زبان اور مکالمہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ اخبارات کی زبان کا سادہ، غیر مبہم اور مشکل الفاظ سے مبرا ہونا ضروری ہے، ورنہ خیالات کی ترسیل کا عمل ادھورار ہ جائے گا۔ چودھری رحم علی ہاشمی نے بجا لکھا ہے:
’’نہ صرف خبروں، بلکہ پورے اخبار کی زبان سادہ، بے تکلف، زوردار اور دل نشیں ہونی چاہیے۔‘‘(فن صحافت، ص:۴۲)
رحم علی ہاشمی نے اخبارات اور مطبوعہ صحافت کے چوکھٹے میں یہ بات کہی ہے، لیکن کیا انھی اصولوں کا نفاذ ترسیل کے دیگر ذرائع پر نہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تھوڑے فرق کے ساتھ یہی باتیں دوسرے ذرائع کے لیے بھی پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہیں۔اخبارات میں شائع ہونے والا کوئی مواد، یا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی وساطت سے نشر ہونے والا کوئی پروگرم عوام الناس کی ذہنی سطح اور ان کی قوت متخیلہ کے محدود دائرے کو مرکز نظر میں رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے، اس لیے ان شرائط کی پاسداری تمام قسم کے ذرائع ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ الفاظ اور نوشتہ حروف کی کتنی قدر وقیمت ہے اور کس طرح زبان کے مناسب استعمال سے ایک کامیاب مواصلات کار اپنے قارئین کو گرویدہ بنا سکتا ہے، اس کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:
’’الفاظ اخبار نویس(صحافی) کا سرماےئہ حیات وروزگار ہیں، دن رات انھی سے سابقہ پڑتا ہے۔ معنی اور مفہوم کے اعتبار سے الفاظ کا صحیح استعمال عبارت کو جلا بخشتا اور قاری کو خبر پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ لکھنے والے کی یہی صلاحیت اخبار( اور دوسرے ذرائع ابلاغ) کی مقبولیت میں اضافہ کرتی ہے۔ ‘‘(اردو صحافت: ترجمہ وادارت، ص:۲۷)
ادبی اور صحافتی زبان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ادبی تحریر لکھتے ہوئے نہ وقت کسی کا دامن تھامتا ہے اور کسی قسم کی پابندی عائد نہ ہونے کی وجہ سے سوچنے اور غور کرنے کی فرصت سے بھی ادیب کو نہیں روکا جاسکتا ۔ جب کہ صحافتی دنیا میں وقت کی قلت دامن گیر ہوتی ہے، ،ذرا سی تاخیر سارے ابلاغی نظام پر پانی پھیر دیتی ہے۔ یہاں نہ سوچنے اور غور وفکر کرنے کی فرصت اور نہ اپنی تحریروں کو ادبی چاشنی سے آمیز کرنے کا موقع۔ ادیب ایک خاص اور محدود طبقے کو نظر میں رکھ کراپنا قلم چلاتا ہے، تو صحافی کا دائرئہ ترسیل لامحدود اور ریسیور غیر معدود ہوتا ہے۔ عام طور سے اخبار نویس اپنی بات قارئین کے دلوں میں اتارنے میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے، تو ادیب اور قلم کار نسبتا اپنی خلاقانہ صلاحیت اور فن کاری کا نقش دوسروں پر قائم کرنے کے لیے قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ سید اقبال قادری ادبی اور اخباری زبان میں فرق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ادبی زبان فکر انگیز، خوب صورت، امتیازی اور جاذب نظر ہوتی ہے، جب کہ اخباری زبان پر لطف ،معلوماتی، جامع، سلیس اور عام فہم ہوتی ہے۔‘‘ (رہبر اخبارنویسی ، ص:۲۷۰)
اخباری زبان میں تو تھوڑی سی چھوٹ بھی دی جاسکتی ہے کہ اخبار کا سامع کم ازکم بنیادی تعلیم سے بہرہ ور ہوتا ہے، لیکن ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کوئی پروگرام نشر کرتے وقت سامعین اور ناظرین کی ذہنی سطح، ان کے عقائد، ان کے ذاتی رجحانات اور ان کی پسند وناپسند کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہوتا ہے، کیوں کہ ریڈیو کے سامعین یا ٹی وی کے ناظرین کاایک بڑا طبقہ وہ ہوتا ہے جو بنیادی تعلیم سے نہ صرف یہ کہ بہرہ ور نہیں ہوتا، بلکہ وہ راست تخاطب کو زیادہ اور سہل انداز میں زیادہ انگیز کر سکتا ہے۔ اخبارات میں اگر کوئی نامانوس اور مشکل لفظ نظر سے گزرے تو وہاں دوسروں سے استفسار، یا لغت دیکھنے اور غور و فکر کرکے یا اپنی قوت متخیلہ پر زور ڈال کر اس کا مطلب برآمد کیا جاسکتا ہے، لیکن ریڈیو میں یہ سہولت سرے سے ناپید ہے۔ ریڈیائی تحریر گفتگو اور بات چیت کا ذخیرہ ہوتی ہے۔یہاں تو الفاظ کمان سے نکلنے والے تیرکے مانندہوتے ہیں۔ ریڈیو کی زبان میں ربط اور منطقی ترتیب کو بھی کامیاب ترسیل میں بڑادخل حاصل ہے۔ جملے طویل نہ ہوں، کیوں کہ ریڈیوسے نشر کیے جانے والے پروگرام میں فورا اور بر وقت سمجھنے کی پابندی سے سامع مجبور ہوتاہے، سامع کو نہ لغت دیکھنے اور دوسروں سے دریافت کرنے کی فرصت، اس لیے ریڈیائی تحریر میں سلاست، ربط، سادگی اور وضاحت کا ہونا ازبس ضروری ہے۔ کمال احمد صدیقی نے ریڈیائی تحریر کی خصوصیات شمار کراتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا ہے :
’’بول چال کی اردو ہی براڈ کاسٹ کی زبان ہے۔ ریڈیو کی کہانی کے لیے منشی پریم چند کی اور گفتگو کے لیے مولوی عبد الحق کی نثر اعلی ترین معیاری زبان ہے۔ ‘‘(اردو اورعوامی ذرائع ابلاغ، ص:۱۵۰)
ٹیلی ویژن میں آواز اور عکس کا امتزاج ہوتا ہے، اس لیے وہاں آواز اور زبان کے ساتھ تصویری عکس بھی تفہیم اور ترسیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کو تصویری زیر وبم اور جسمانی نقل و حرکت کے تعاون سے قابل فہم بنایا جاسکتا ہے۔تصویر کی ایجاد نے الفاظ اور زبان کی اہمیت کو کم نہیں کیا ہے۔ رقص وموسیقی کے علاوہ سارے پروگرام زبان کے محتاج ہوتے ہیں۔ زبان ہی تصویری صحافت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ٹیلی ویژن کا کوئی پروگرام ایسانہیں ، جہاں زبان کے استعمال سے گلو خلاصی ممکن ہو۔ انجم عثمانی نے صحیح لکھا ہے:
’’سیریل ہو یا ڈراما، مباحثہ ہو یا خبریں، دستاویزی فلم ہو یا چند سکینڈ کا اناؤنسمنٹ وغیرہ ہر پروگرام کے لیے زبان کی ضرورت ناگزیر ہے۔ ‘‘( ٹیلی ویژن نشریات، ص: ۱۴)
اخبارہو یا ریڈیویا ٹیلی ویژن حتی الامکان یہ کوشش کرنی چاہیے کہ زبان روز مرہ کے الفاظ پر مشتمل ہو، کتابی زبان سے احتراز بہتر ہے، کیوں کہ اس میں کوئی علمی یا تحقیق مضمون ذہن نشیں کرنا مقصد نہیں ہوتا، بلکہ صرف معلومات اور اطلاعات سے قارئین کوباخبر کرنا ہے۔ایسے الفاظ کا انتخاب کریں جو سامعین او ر قارئین پر وہی اثر مرتب کریں جس کی ترسیل آپ کا ہدف ہے۔ سادہ اور سہل زبان کی تاکید سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ابلاغ کی زبان چاشنی اور دل چسپی سے بالکل عاری ہوجائے، یہ نکتہ ہمیشہ ملحوظ رہے کہ سادگی میں بھی غضب کی پرکاری ہوتی ہے، سادہ الفاظ اور روز مرہ کے جملوں کے ذریعے بھی بڑے معجزے رونما ہو سکتے ہیں۔ محاورے ، کہاوتیں، اشعار کے ٹکڑوں کا برجستہ استعمال زبان کی دل کشی اور جاذبیت پیدا کرتے ہیں۔ذرائع ابلاغ خواص کے درباری ترجمان نہیں، بلکہ یہ عوامی ادارے ہیں۔ کوئی بھی بات اتنی سہل زبان میں پیش کی جائے کہ کسی کی سمجھ سے بالا تر نہ رہے۔ میر کا یہ شعر عوامی ترسیل کے حسب حال ہے:
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
خلاصہ یہ کہ عوامی ترسیل کی زبان میں ان تمام طبقات کی ترجیحات اور تعلیمی قابلیت کا خیال رکھنا ۔ضروری ہے، جو ہمارا ہدف ہوتے ہیں، اگر ترسیل کے عمل میں ان امور کو اہمیت نہیں دی گئی، تو ترسیل کا عمل کامیاب، مؤثر اوربا معنی نہیں کہلاسکتا۔ عوامی ترسیل کی زبان کیسی ہو، اپنے ناقص مطالعے کی روشنی میں درج ذیل باتوں پر عمل درآمد کرنے کی سفارش کی جاسکتی ہے۔
۱۔ سادہ اور آسان الفاظ کا استعمال کیا جائے۔ ۲۔الفاظ اور جملوں کی تکرار نہ ہو۔ ۳۔ مترادفات کا زیادہ استعمال نہ ہو۔ ۴۔ تحریر میں بے ربطی نہ ہو۔ ۵۔جملوں کی ساخت اور ترکیب بھی آسان ہو۔ ۶۔اضافت کا استعمال کم ہو۔ ۷۔جملے مختصر ہوں۔ ۸۔ صرفی ونحوی قواعد کی صحت کا خیال بھی ضروری ہے۔ ۹۔مروجہ اصطلاحیں مستعمل ہوں۔ ۱۰۔ عربی ، فارسی، سنسکرت اورانگریزی کے ان الفاظ کو نہ برتا جائے جو نامانوس اور مشکل ہوں۔

Monday, 13 January 2014

جمہوری اقدار کے فروغ میں اردو شاعری کامخلصانہ کردار

ابرار احمد اجراوی

جمہویت’ عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے سے موسوم‘ ایسا اجتماعی طرز حکومت ہے جس میں سیاسی نمائندوں کے انتخاب سے لے کر عوام کے لیے وضع کی جانے والی پالیسیوں پر بھی عوامی خواہشات ہی اثر انداز ہوتی ہیں۔ جمہوری نظام حیات میں نہ صرف یہ کہ آزادی، مساوات اور تمام شعبہائے حیات میں ہر شہری کو روزگار اور ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوتے ہیں، بلکہ منتخب حکمرانوں کو بھی عوام کے سامنے اجتماعی مفاد کی ضمانت کے تئیں،جواب دہی کی ذمے داری اد کرنی پڑتی ہے۔ شعرو ادب کا تعلق چوں کہ راست طور پر عوام سے ہوتا ہے، اس لیے اردو زبان خصوصا شاعری نے ہمیشہ جمہوری اقدار اور عوامی جذبات واحساسات کی ترجمانی کا مقدس فریضہ انجام دیا ہے۔ فرقہ پرستی، نسلی منافرت، ظلم وتشدد کے خلاف وہ ہر موقع پر سینہ سپر نظر آتی ہے۔ اتحاد ویک جہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، آزادی رائے، احترام آدمیت، حقوق انسانی کا تحفظ، منصفانہ اقدار کے فروغ، غریبوں اور مفلوک الحالوں کی حمایت، جاگیر داروں اور آمروں، نیزغیر ملکی سامراج کے خلاف عوامی رائے عامہ کی ہمواری، ابتدا سے ہی اردو ادب کے شریانوں میں خون بن کر دوڑ تا رہا ہے۔ اردو کے پہلے شاعر امیر خسرو کے عہد سے لے کر جدید ٹکنالوجی کے دوش پر سوارموجودہ دور تک اردو شاعری عوامی مزاج کی نمائندگی کا مستانہ اور رندانہ رول اد کرتی رہی ہے۔ترقی پسندی،جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی پیچیدہ ادبی بحثوں اور ادبی بساط پر کھیلی جانے والی بازی گری نے بھی اردو ادب کی اس عوامی اور جمہوری شناخت پر اپنا کوئی منفی اثر مرتب نہیں کیا، بلکہ ادبی اور تنقیدی مکاتب میں جس قدر توسیع اور تکثیر ہوتی رہی، اردو ادب کا جمہوری چہرہ مزید آب وتاب کے ساتھ نکھر کر سامنے آیا ہے۔ کیوں کہ آل احمد سرور کے مطابق :” یہ ( اردو) جمہور کی زبان اور جمہور کا ادب ہے۔ جمہور نے اسے گویائی بخشی اور جمہور نے اسے پروان چڑھایا۔ “
ہندستان میں آئینی جمہوریت کی صبح تو ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء کو طلوع ہوئی، لیکن اردو ادب میں اس کی بازگشت امیر خسرو کے عہد سے ہی سنائی دیتی ہے۔ میر و سودا کے عہد میں بھی جمہوریت کے اصول اور آدرشوں پر مبنی مضامین اردو شاعری میں نظم کیے گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے گرچہ جمہوریت پر تنقید کی تھی، لیکن ان کی تنقید کا نشانہ وہ جمہوریت تھی، جس کی آڑ میں آمریت اور شہنشاہیت کی پرورش کی جاتی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ مجوزہ جمہوریت سرمایہ دارانہ مغربی نظام کی زائیدہ ہے ، وہ ایسی جمہوریت کو آزادی کی نیلم پری نہیں، بلکہ جمہوری قبا میں ملبوس دیو استبداد سے تعبیر کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے خضر راہ میں یہی کہا ہے، جس سے ان کے مغربیت زدہ جمہوریت کے تصور کو تقویت ملتی ہے:
ہے وہی ساز کہن، مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں، غیر از نوائے قیصری
اگر علامہ اقبال عوامی آزادی اور مساوات سے عبارت جمہوری طرز حکومت کے مخالف ہوتے، تو وہ نہ تو ’سلطانی جمہور ‘کی آمد کی روح افزا نوید سناتے اور نہ ہی ہر’ نقش کہن‘ کو پیروں تلے روند ڈالنے کی اپیل کرتے۔ نظیر اکبر آبادی ، الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، مولانا محمد حسین آزاد، اکبر الہ آبادی، اسماعیل میرٹھی، سر سید اور ان کے دوسرے رفقائے کار اور ان اساطین ادب کے بعد حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، فیض،جوش ، فراق، تلوک چند محروم، علامہ جمیل مظہری، ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری وغیرہم نے اردو ادب کی اس جمہوریت نوازی کو اپنے فکر وفلسفے کی آنچ دی اوراس کو ایک پسندیدہ طرز حکومت کے طور پر اطراف عالم میں متعارف کرانے اور سنجیدگی اور اعتدال کے ساتھ اس نظام کی مدح وستائش میں اپنی زندگی کے قیمتی شب وروز ایک کردیے۔
اردو زبان کے آغاز وارتقاء کا زمانہ وہ ہے جب ہندستان کے سیاسی نظام پرنام نہاد بادشاہی طرز حکومت کا غلبہ تھا اور عوامی اصول زندگی کو محور اور مرکز کی حیثیت حاصل نہیں تھی، اس کے باوجود کیاہندو اور کیا مسلم سبھی نے جمہوری اور عوامی اقدار کے مظاہر کی حمایت اور اس کو سیاسی اور سماجی زندگی کے دھارے میں شامل کرنے کا زریں درس دیا ہے۔ ہمارے صوفیوں، بھگتوں، جوگیوں،رشیوں منیوں اور راہبوں نے انسانیت نوازی، حب الوطنی، احترام انسانیت سے آمیز مضامین کو اپنے پیغامات میں مرکزیت دی ہے۔ بعض شعرا نے اردو کے شعری اور نثری افق پر اسی حوالے سے اپنی شناخت قائم کی کہ وہ عوامی جذبات کی ترجمانی کو بنیادی قدر کے طور پر برتتے تھے اور ان کی تخلیقی ذہانت کا محور ومطاف وہ انسانی مسائل تھے، جو راست طور پر عام آدمی کی روزمرہ کی زندگی سے مربوط تھے۔ اردو کی جمہوریت پرستی اور اس کی عوامی اساس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ درباروں اور شاہی محلات سے کہیں زیادہ بازاروں اور خانقاہوں کی گود میں کھیلی کودی اور بادشاہوں اور امراء کی زر آمیز سر پرستی میں نہیں، بلکہ صوفی سنتوں کی ، سیم وزر سے خالی، مگرانسانیت آشنا آغوش میں پروان چڑھی ہے۔ اس کی پرورش وپرادخت اور اس کو ایک صاف ستھری زبان کا مقام عطا کرنے میں انھی صوفی سنتوں کا لہو شامل ہے۔ دکن جو اردو کا اولین مرکز ہے، وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کے فکری سرمایے اور بنیادی فلسفے پر بھی،چاہے انھوں نے شاہی درباروں میں ہی ادب خلق کیوں نہ کیا ہو، جمہوریت کا پختہ رنگ چڑھا ہوا ہے۔ قلی قطب شاہ، غواصی، نصرتی، نظامی بیدری، شوقی، وجہی ، ولی اور سراج وغیرہ کے اشعار پر عوامی افکار وتصورات کا ناقابل محو نقش ثبت ہے۔
شمالی ہند جو اردو ادب کے ارتقا کی دوسری جنم بھومی ہے اور جہاں اردو ادب نے اپنی ارتقائی منزلیں بڑی آسانی اور حوصلے اور جذبے کے ساتھ طے کی ہے یہاں بھی آغاز سے ہی عوامی آواز اور عام لوگوں کے مسائل کو ردیف و قافیے کا پیکر عطا کرنے میں ہمارے شاعروں نے کسی غفلت اور لاپروائی سے کام نہیں لیا ہے ۔ یہ دو شعر دیکھیں، جن میں کثرت میں وحدت کی دعوت کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر تفریق کی مذمت کی گئی ہے، ایک شاہ حاتم کا ہے اور دوسرا شاکر ناجی کا۔
کعبہ ودیر میں حاتم بخدا غیر خدا
کوئی کافر نہ کوئی ہم نے مسلماں دیکھا
نہیں ہے وحدت و کثرت میں فرق مومن وکافر
کہ یہ کہتا ہے ہردم دحدہ اور وہ کہے ہر ہر
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اگر صرف انیسویں صدی کے دائرے میں رہ کر بھی باتیں کریں تو اردو شاعری کا چمکتا ہوا جمہوری چہرہ قدم قدم پر نظر آئے گا۔۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی کے بعد پورے ملک پر برطانوی سامراج کے تسلط کا توڑ کرنے اور ہندستانیوں کے اکھڑے ہوئے قدموں کو دوبارہ جمانے کے لیے کئی اصلاحی تحریکات نے جنم لیا۔ سر سید اور ان کے رفقائے کار نے خاص طور سے مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا اپنے سر اٹھایا، انھوں نے اس خوابیدہ قوم کو بدلتی زندگی کا سبق پڑھانے اور اس کو ترقیوں کے رواں قافلے سے ہمدوش کرنے کے لیے اردو زبان وادب کا ہی سہارا لیا اور ایسے ادب کی تشکیل کی حمایت کی اور ملک کے ادیبوں کو ایسا ادب خلق کرنے کی دعوت دی، جس میں طبقئہ جمہور کی آواز اٹھائی گئی ہو۔ سر سید کی علی گڑھ تحریک نے ادب کو دربار اور کوٹھریوں سے نکال کر عوامی چوپال اور چوک چوراہے کی زینت بنایا۔ ان کی کوششوں سے نہ صرف شاعری اور نثر کے موضوعات تبدیل ہوگئے، بلکہ ادبی اصناف میں بھی مختلف تبدیلیوں کی گنجائش نکالی گئی، قصیدہ نگاری ، داستان نویسی اور عشق وعاشقی پر مبنی غزلوں کی زنجیروں سے اردو ادب کو آزاد کرایا گیا اوراس کی جگہ ناول، افسانہ اور جمہور کے مسائل سے قریب موضوعاتی نظموں کا اضافہ کیا گیا، جس میں عام انسان اور جمہور کو مرکز بنایا گیا۔
انیسویں صدی صرف سیاسی اعتبار سے ہی جاں گسل اور مسائل انگیز نہیں تھی، بلکہ اس سیاسی شکست وریخت نے زندگی کی دوسری معاشرتی اور سماجی اقدار کو متأثر کرنے کے ساتھ ہماری زبان کے ادبی اور شعری سرمایے پر بھی اپنے ہمہ گیر اثرات مرتب کیے۔ جاگیر دارانہ نظام اور انگریزوں کے ناپاک سایے کے زیر اثر عوامی جذبات کی ترجمانی اور اردو کے انقلابی اور جمہوری کردار کی تلاش آسان کام نہیں تھا۔ اس لیے ہمارے ادیبوں نے عوامی اقدار کی ترجمانی کے لیے کچھ مصلحتوں کے پیش نظر رمز وکنایے اور استعارے اور تشبیہات کے توسط سے عوامی افکار اور تصورات کی ترجمانی کی۔ میر تقی میر کی بیش تر غزلیں انسانی اور عوامی اقدار کے ارد گرد گردش کرتی ہیں، سودا کے شہر آشوب اور میر درد کے متصوفانہ کلام نے بھی عوامی اقدار کو ہی الفاظ کا پیکر عطا کیا ہے۔ میر تقی میر کے اس شعر میں بے رحم حالات کے بطن سے جنم لینے والے جان لیوا مسائل اور احساس بیچارگی کی کتنی حسین تصویر کھینچی گئی ہے:
مزاجوں میں یاس آگئی ہے
نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی
اور اس شعر میں تنگی زمانہ اور پریشاں حالی کی تعبیر کا کتنا اثر انگیز تشبیہی انداز اختیار کیا ہے:
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
عوامی شاعر نظیر اکبرابادی کی نظمیں: شہر آشوب، مفلسی، روٹی، عید اور ہولی وغیرہ عوامی جذبات واحساسات اور قومی امنگوں کی ترجمان ہیں، انھوں نے عوامی مسائل کی ترجمانی اور ان کے جذبات واحساسات کی پاسدار ی میں اپنے فن اور تخلیقی بہاوٴ سے خوب کام لیا ہے۔ ان کی بنیادی لفظیات کا خمیر ہی عوامی خیالات کی آمیزش سے اٹھا ہے۔ جیسے یہ اشعار:
صراف، بنیے، جوہری اور سیٹھ ساہوکار
دیتے تھے سب کو نقد سو کھاتے ہیں اب ادھار
بازار میں اڑے ہے پڑی خاک بے شمار
بیٹھے ہیں یوں دکانوں پہ یہ اپنی دکان دار
علامہ اقبال تو ہماری مفاد پرست اور موقع شناس سیاست کی بھینٹ چرھ گئے، ورنہ ان کے اشعار کی بنیادی ساخت اور زیریں لہروں پر غور کریں تو و ہاں بھی جمہوریت کا روشن چہرہ نکھر کر سامنے آتا ہے۔آزادی رائے، حب الوطنی، انسانیت دوستی، عالمی مسائل وغیرہ پر ان کی جتنی نظمیں ہیں، ان میں جمہوریت اور سیکولر ازم کی تابناکی اور درخشندگی نظر آتی ہے۔ ترانہ ہندی، نیا شوالہ، اور تصویر درد میں قومی یک جہتی، فرقہ وارانہ یک جہتی اور سیکولرازم کے آفاقی تصور کو پیش کیا گیا ہے۔اگر جمہوری نظام میں مساوات کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے، تو اس شعر کی ہر ہر سطر سے مساوات کے چشمے ابلتے ہیں، اقبال نیا شوالہ میں کہتے ہیں:
آ! غیریت کے پردے ایک بار پھر اٹھا دیں
بچھڑوں کو پھر ملا دیں، نقش دوئی مٹا دیں
اور اپنی مشہور زمانہ نظم لینن خدا کے حضور میں مروجہ عوامی مسائل کی ترجمانی ان لفظوں میں کرتے ہیں:
بے کاری وعریانی و مے خواری وافلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
اور جب اقبال نے یہ شعر کہا تو جمہوریت اور سیکولرازم کے سارے تصورات ذہن کی اسکرین پر نمایاں ہوگئے :
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندستاں ہمارا
غالب نے ، جنھوں نے اجڑتی ہوئی دلی اور لٹتے ہوئے لال قلعے کا خوفناک چہرہ دیکھا ہے، بھی عوامی اور جمہوری اقدار کی ترجمانی میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لیا ہے۔ ان کی شاعری کا ملغوبہ ہی اس عہد کی مروج عوامی زندگی پر مسلط ابتری اور بد حالی جیسے عناصر سے تیار ہوا ہے۔ دلی کی تباہی و بربادی اور عوامی امنگوں کی پامالی کا کتنی شاندار مرقع کشی ان متفرق غزلوں کے اشعار میں ہے:
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنہ خوں ہے ہر مسلماں کا
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
نہ دے نامے کو اتنا طول عالب
کہ حسرت سنج ہوں عرض ستم ہائے جدائی کا
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر نے ان اشعار میں صرف اپنے اجڑے دل کی دنیا کا حال ہی نہیں، بلکہ پورے ہندستان کی حالات کا رس نچوڑ کر رکھ دیا ہے:
لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے اس عالم ناپائیدار میں
کہہ دو یہ حسرتوں سے کہیں اور جابسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
حب وطن کے جذبے سے سرشار پنڈت برج نارائن چکبست کی شاعری تو عوامی اقدار کے ہی تانے بانے سے تیار ہوئی ہے۔ انھوں نے حب الوطنی کے نعمے چھیڑے نے کے ساتھ اس وقت کے عوامی مسائل اور جمہوری روایات کو بھی شعری پیکر عطا کیا ہے۔ ان کی نظمیں راماین کا ایک سین اور آوازئہ قوم میں بعض جمہوری قدروں کو از سر نوآواز دی گئی ہے۔ دیکھیے یہ اشعار:
یہ آرزو ہے کہ مہر ووفا سے کام رہے
وطن کے باغ میں اپنا ہی انتظام رہے
گلوں میں گل چیں نہ صبح وشام رہے
نہ کوئی مرغ خوش الحاں اسیر دام رہے
۱۹۳۶ء میں رومانیت کے رد عمل کے طور پر ادبی منظرنامے پر ابھرنے والی ترقی پسند تحریک کے منشور میں ہی عوامی جذبات کی ترجمانی اور امن ومحبت کی تشہیر وتبلیغ پر زور دیا گیا تھا اور ہر قسم کی غلامی، استحصال، سماجی عدم مساوات اور طبقاتی تفریق کے خلاف اس تحریک نے شمشیر برہنہ کا کردار ادا کیا ۔ جمہوریت کی حمایت، انصاف کا مطالبہ، سماجی عد مساوات کا خاتمہ، احترام انسانیت اور عوامی رائے کا احترام یہی کچھ ترقی پسند ادب کا محور تھا۔ شاعری میں جہاں جوش، فیض، علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، مخدوم محی الدین، اسرار الحق مجاز، ساحر لدھیانوی، جذبی، جاں نثار اختر اورشمیم کرہانی وغیرہ نے اپنی فکر کا خمیر جمہوری عناصر سے تیار کیا، وہیں نثر میں عصمت چغتائی، کرشن چندر، بیدی، بلونت سنگھ ، حیات اللہ انصاری وغیرہ نے طبقئہ جمہور کی آواز حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے میں پیغام بر نثر نگار کا رول ادا کیا۔ ساحر لدھیانوی نے احتجاج اور مزاحمت کی راہ اختیار کی اور اپنی ندرت فکر اور راست گوئی سے کام لے کر زمینی مسائل کو اپنے احساس کی شدت کا جامہ پہنایا ۔ ساحر نے ہمشہ دو قومی نظریے کی مذمت کی، جمہوریت پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے وحدت میں کثرت کی حمایت کی ۔ ان کی دو نظمیں’ آج‘ اور’ مفاہمت ‘جمہوریت کا سر نامہ بننے کی حقدار ہیں۔ ایک نظم میں کہتے ہیں:
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنسی، رادھا کی بیٹی
۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم کے بعدفرقہ واریت کے سایے میں ہمارے شاعروں نے جمہوری اقدار کو جب بھی مجروح ہوتے دیکھا، اس تلخی اور تیزی کو اپنے فن کے قالب میں ڈھال دیا۔ انھوں نے جمہوریت اور سیکو لرازم کی آڑ میں اپنے مفادات کی سیاست کرنے والے عوامی نمائندوں پر بھی تنقید کا تیر چلایا ہے کہ آشو ب و ابتلا کے عہد میں اردو شاعری ہی امید کی واحد کرن بن کر نمودارر ہوتی ہے۔ آزادی اورجمہوریت کو ایک سیاسی نظام کے طور پر قبول کر لینے کے بعد ہمارے شاعروں نے تہذیبی وحدت کا سفیر بن کر جمہوریت کے ستونوں کو مضبوطی عطا کرنے کے لیے ایسی شاعری کی ، جس سے جمہوریت کا قد مزیداونچاہوا۔ تلوک چند محروم کی نظم’ آزاد ہندستان‘، جعفر علی خاں کی نظم ‘ جشن جمہوریت‘ سراج لکھنوی کی نظم’ جشن جمہور‘رضا نقوی واہی کی نظم‘ یوم جمہور‘ جمہوری قدروں کی بحالی کے تعلق سے حوالے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ معاصر شعرا بھی مشاعرے کے پر وقار اسٹیج سے ملک کے طول وعرض میں بھائی چارہ، اتحاد اور اخوت ومحبت کا چراغ روشن کرنے کے لیے ا پنا خون جگر جلا رہے ہیں۔ لیکن چند شر پسند عناصر کی آنکھوں میں ان کی یہ کوششیں کانٹا بن کر کھٹکتی رہتی ہیں۔اور وہ جمہوریت، سیکولرازم، رواداری کی فضا کومکدر کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔ آج پھر ضرورت ہے کہ ہمارے انصاف پسند دانشور اور انسانی درد رکھنے والے قومی رہنما آگے آئیں اور تلوک چند محروم کی نظم ”۲۶/جنوری “کو عملی جامہ پہنائیں کہ یہیں سے ہندستان کی ہمہ جہت ترقی کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ محروم کہتے ہیں:
بھارت کا عزم ہے یہ ، توفیق اے خدا دے
دنیا سے ایں وآں کی تفریق کو مٹاد ے
امن واماں سے رہنا ہر ملک کو سکھادے
ہر قوم شکریے میں ہر سال یہ صدا دے
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

Tuesday, 7 January 2014

علامہ اقبال اور عشق رسول


علامہ اقبال صرف شاعر نہیں تھے، عظیم المرتبت مفکر اور بلند پایہ فلسفی بھی تھے۔ شاعر بھی ایسے نہیں، جن کے ہاں رومان پروری اور نام نہاد عشق وعاشقی کا عنصر اس درجہ غالب ہو کہ ا ن کا ذہن زمینی حقائق اور سنگلاخ سچائیوں سے منھ موڑ لے ، انھوں نے تو فکر و فن کی دوئی کوایک نا قابل تقسیم اکائی میں تبد یل کردیا تھااور ادب برائے ادب کی تخیلاتی دنیا کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ علامہ اقبال ایسے شاعر تھے جن کے ہاں ادب وسیع تر اسلامی اور سماجی مقاصد کی تکمیل کا مستحکم ذریعہ تھا اور وہ ادب صرف انسان کی جمالیاتی حس کو ہی نہیں محظوظ کرتا تھا،بلکہ اس کے عقل ووجدان، اس کی فکر و خیال اور اس کے سماجی اور معاشرتی تصورات پر بھی ہمہ گیر اور بھرپور طور پر اثر انداز ہوتا تھا۔ اقبال جہاں بڑے شاعر تھے، وہیں اسلامی وملی دردرکھنے والے اور قومی غیرت وحمیت سے سرشار سچے او رپکے مسلمان بھی تھے۔ انھوں نے امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کو بیدار کرنے، انھیں فراموش ماضی کی یاد دہانی کرانے اور انھیں خیر امم کے مطلوبہ منصب پر لا کھڑ اکرنے کے لیے پیمبرانہ مقاصد کے تحت شاعری کے ہتھیار سے کام لیا۔ناقدین اپنے مفروضات کی بنیاد پرخواہ کچھ بھی رائے قائم کریں، حقیقت یہ ہے کہ یہی تذکیری دور ان کی شاعری کا نقطئہ عروج ثابت ہوا۔​
علامہ اقبال کی تعلیم و تربیت ایسے اسلامی اور دینی ماحول میں ہوئی تھی کہ اسلام، انبیاء ، صلحاء، صوفیاء اور علمائے کرام سے محبت ایام طفولت میں ہی ان کے خمیر میں رچ بس گئی تھی۔ حب رسول اور عشق نبوی تو ان کے شریانوں میں خون بن کر گردش کرتا تھا۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ تمھارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میری محبت تمھارے دل میں اولاد، والدین اور پورے انسانی کنبے کی محبت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس حدیث کے واضح مفہوم پر ایمان رکھتے ہوئے علامہ اقبال حب نبوی اور عشق رسول کو ایمان کی بنیاد واساس تصور کرتے تھے ۔ آپ ﷺ کا نام زبان مبارک پر آتے ہی یا آپﷺ کانام کانوں میں پڑتے ہی احساس وشعور میں سوز وگداز کی برقی لہر دوڑ جاتی اورتفکرات کی لا محدود دنیا میں کھو جاتے تھے اور پر نم آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔ ذکر نبوی کیا چھڑ تا کہ ان کے جذبات پر رقت کی کیفیت طاری ہوئی اور وہ چند ثانیوں میں بے قابو اور بے تاب ہو گئے۔ عشق رسول ، صحابئہ کرام سے محبت ان کی شاعری کا جزو اعظم تھا۔ اور عشق نبوی کی آگ نے غیر محبوب کے سارے تصورات کو جلا کر خاکستر کردیا تھا۔علامہ اقبال کی حضور پرنور ﷺ سے والہانہ عقیدت اور محبت اتنی دو آتشہ تھی کہ پنجاب کے ایک صاحب ثروت کی شان دار کوٹھری کے مخملی اور نرم بسترے پر اس لیے رات نہیں گزاری اور پوری رات ایک کرسی پر بیٹھ کر روتے اور سسکتے ہوئے یہ کہہ کر گزاردی کہ ” جس رسول پاک کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے حاصل ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سو کر زندگی گزاردی تھی۔ “ اگر چہ انھیں مدینہ منورہ اور روضئہ مطہرہ کی زیارت نصیب نہ ہوسکی، اور مقدرات خداوندی کے تحت فریضئہ حج کی ادائیگی کی سبیل موت تک نہ نکل سکی،لیکن سر زمین حجاز اورمدینہ منورہ کی زیارت کی تمنا دل کے ریشے میں اس قدرپیوست ہو گئی تھی کہ گھنٹوں روضئہ نبوی کی سنہری جالیوں کے تصور اور مکہ و مدینہ کی سنگریزو ں والی وادیوں کے تخیل میں گزاردیتے تھے۔ اخیر عمر میں جب کہ شدید بیماری کے سبب اعضائے جسمانی کمزور ہو گئے تھے، یہ ایمانی آرزو اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ سید عبد الرشید فاضل علامہ اقبال کے حب نبوی اور تصور محبوب کے استغراق اور محویت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ذات قدسی صفات سے علامہ کا تعلق اتنا مضبوط تھا کہ تصور کرتے ہی علامہ کی حالت دگر گوں ہو جاتی تھی اور”میں نے خاص لوگوں سے بطور راز ضرور کہا کہ یہ اگر حضور کے مرقد مبارک پر حاضر ہوں گے تو زندہ واپس نہیں آئیں گے۔ وہیں جاں بحق ہوجائیں گے۔“( اقبال اور محبت رسول، ص:۱۴۷)​
علامہ اقبال کی شاعری کو لازوال وجود بخشنے کے لیے عشق اور محبت پر مبنی عنصر ضروری بھی تھا کہ عشق و محبت سے ہی کسی فکر اور کسی فلسفے کو آنچ ملتی ہے۔عشق اور محبت کی قلمرو کی کوئی انتہا نہیں۔ دنیائے آب وگل کا وجود محبت کا ہی رہین منت ہے۔ اگر خدا کو اپنا جلوئہ جہاں آراء دیکھنا منظور نہ ہوتا تو یہ حسین اور رنگ برنگی دنیا عدم سے وجود میں نہ آتی۔ کیا انسان اور کیا حیوان سبھی محبت اور عشق کی مقدس زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ روئے ارضی کا ذرہ ذرہ عشق ومحبت کا منبع اور مرکز ہے۔ اگر عشق ومحبت کے پاکیزہ عناصر سے روئے ارضی خالی ہوجائے تو دنیاتاریکی اور ظلمات کی گہوارہ بن جائے۔ اور سطح ارضی حیوانیت اور درندگی کی آماجگاہ بن جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق کے کئی مدارج ہیں اور اختلاف مدارج ہی محبت اور عشق کے تصورات کے حسن وقبح کا تعین کرتا ہے۔ محبت کی فسوں سازی اور اس کی ہمہ گیری کا ذکر کرتے ہوئے صاحب ر”حمة للعالمین “قاضی محمد سلیمان منصور پوری لکھتے ہیں۔:”محبت ہی قوت قلب ہے۔ محبت ہی غذائے روح ہے۔ محبت ہی قرة عین ہے۔ محبت ہی حیات الابدان ہے، دل کی زندگی، زندگی کی کامیابی، کامیابی کو دوام و بقابخشنے والی، غرض محبت ہی سب کچھ ہے۔ “​
علامہ اقبال بھی کارزار حیات میں عشق او ر محبت کی تاثیرکے قائل تھے۔ عشق ہی آداب خود آگا ہی سکھاتا ہے۔ اسی سے خودی کو استحکام ملتا ہے۔ اور ہر عمل کو عشق ہی دوام وخلودعطاکرتا ہے۔ عشق سے ہی زندگی کو آب وتاب ملتی ہے اور اسی سے زندگی کی تاریک راہیں روشن ہوتی ہیں۔مسجد طرقبہ اور تاج محل کو عشق ومحبت کی طلسمی تاثیر نے ہی دوام بخشا۔ علامہ اقبال عشق کی تاثیر اور اس کے تقدس و پاکیزگی کے حوالے سے کہتے ہیں۔​
عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفی​
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام​
عشق کے مضراب سے نغمئہ تار حیات​
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات​
علامہ اقبال نے سیرت سرور دو عالمﷺ اور قرآن کریم کے عمیق مطالعے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا تھا وہ یہ تھا کہ حضور اکرم ﷺ کی ذات با برکت تمام ظاہری اور باطنی کمالات کا مخزن اور منبع ہے۔ ایمانی تکمیل کے لیے آپ کی ذات تک رسائی ناگزیر ہے۔ اگر کوئی صاحب ایمان ذات اقدس تک رسائی کی دولت سے محروم رہا تو وہ بو لہبیت میں اسیر اور جاہلیت کا گرفتار ہے۔​
قرآن کریم اور احادیث نبوی میں عشق کا لفظ تو استعمال نہیں ہوا ہے، بلکہ اس مفہوم کے لیے ”محبت“ اور ”حب “کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ عربی زبان کی رو سے دنیوی متعلقات کے سبب عشق کے معنی میں ذرا سی کراہیت کا پہلودر آتا ہے۔ لیکن آگے چل کر عشق اور محبت مترادفات کے طور پر استعمال ہونے لگے۔ احتیاط کے پہلو پر عمل کرتے ہوئے بعض مصنفین عشق کے پہلو بہ پہلو محبت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ محبت کیا ہے۔ سید محمد ذوقی شاہ لکھتے ہیں۔ ” محبت ایک کشش مقناطیسی ہے۔ جو کسی کو کسی کی جانب کھینچتی ہے۔ “​
علامہ اقبال کا دل عشق رسول سے معمور تھا۔ عشق نبوی کی روشنی سے ان کے دل کی پوری کائنات منور تھی۔ دل میں اتنا سوز وگداز تھا کہ سرکار دوعالم کا نام لبوں پرآتے ہی بے تاب ہوجاتے ، ماہی بے آب کی طرح تڑپتے اور اندروں میں زیر وزبر ہونے والے جذبات کا عالم دیدنی ہوتا تھا۔ اقبال شان نبوی میں زبان درازی اور دشنام طرازی تو دور کی بات ہے، ادنی گستاخی کو بھی برداشت نہ کرتے تھے۔ اقبال حب نبوی سے اس قدر سر شار تھے کہ اگر کوئی آپﷺ شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا تو برہمی کا وہ اظہار کرتے کہ ایسامعلوم ہوتا کہ غصے اور تمتماہٹ کی وجہہ سے پھٹ پڑیں گے ۔ علامہ اقبال عشق رسول کی دولت کو سرّ دین اور عقبی کی کامیابی کا مدار بھی کہتے تھے۔ ایک بار کسی نے آپ کی محفل میں شان اقدس میں گستاخانہ الفاظ ادا کیے تو نہ صرف اس کو اسی موقع پرسخت سست کہا بلکہ تنبیہا اس کو اپنی محفل سے بھی نکلوا دیا کہ حب نبوی کا تقاضا یہی تھا۔اگر آج علامہ اقبال با حیات ہوتے اور سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے بد نام زمانہ مصنفین کی گستاخیوں کا انھیں علم ہوتا تو ان کے رقت آمیز قلب و دماغ پر کیسی قیامت گزرتی اور وہ اس کا کتنا سخت نوٹس لیتے ، اس کا محض اندازہ کیا جاسکتا ہے۔​
نتھو رام نامی شخص نے انگریزی زبان میں تاریخ اسلام نامی کتاب لکھی اور اس میں حضور ﷺ کی شان میں نا زیبا تبصرہ کیا۔مسلمانوں نے اس شاتم رسول کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیا، مگر نتیجہ صفر رہا۔ ہزارہ کے ایک نوجوان عبد القیوم کو اس گستاخانہ مذبوحی حرکت کی خبر ملی، اس کی ایمانی غیرت وحمیت کے سمندر میں وہ جوش آیا کہ اس نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ہی دھاردار چاقوسے اس گستاخ رسول پر حملہ کردیا اور موقع پر ہی اس کا قصہ تمام کردیا۔ عبد القیوم کو سزائے موت ہو گئی، مسلمانوں کے ایک وفد نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کے لیے علامہ اقبال سے در خواست کی اگر وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں تو وائسرائے سے مل کران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کراسکتے ہیں۔ علامہ نے وفد کی باتیں سن کر یہ دریافت کیا کہ کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟۔ وفد کے ارکان نے کہا کہ عبد القیوم کمزور کیوں پڑتا، اس نے تو عدالت میں ہر بار اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور وہ علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت اپنی زندگی کی قیمت پر خریدی ہے۔ یہ سن کر علامہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے:” جب وہ ( عبد القیوم) کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں ؟ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔“​
اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے۔ راج پال نامی شخص نے لاہور میں آپ ﷺ کی شان اطہر میں بد زبانی کی۔ انگریزوں کی عدالت نے اس کو بھی قرار واقعی سزاکا مستحق نہیں گردانا۔ آخر غازی علیم الدین کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور اس گستاخ رسول کو جہنم رسید کردیا۔ انھیں بھی عدالت نے سزائے موت دی۔ محبت رسول کی راہ میں پروانہ وار اپنی قیمتی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ان شہیدوں کی قربانی نے علامہ کو بہت متأثر کیا اور ”لاہور اور کراچی “ کے عنوان سے تین اشعار پر مشتمل قطعہ کہہ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا:​
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ​
قدر وقیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر​
۱۹۰۵ء میں سفر یورپ سے قبل علامہ اقبال بھی غزل کے پیمانے میں روایتی قسم کی نعت لکھا کرتے تھے، لیکن جب یورپ کے سفر نے انھیں مسلمان کردیا اور ان کی فکر اور تخیل نے ایک ہی جست میں سارے فاصلے عبور کرلیے تو انھوں نے حب نبوی سے لبریز وہ نعتیہ مضامین رقم کیے کہ اس کی ہر سطر کیا ہر لفظ سے محبت، عشق، عقیدت، شیفتگی ووارفتگی اور ذوق وشوق کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ سفر یورپ کے بعد انھوں نے جو نعتیہ شاعری کی اس کا اسلوب اور لہجہ پہلے سے یکسر مختلف تھا۔ ایسی شاعری کو ہی جزو پیغمبری سے تعبیر کیا گیا ہے۔یورپ سے واپس لوٹنے کے بعد ” بلاد ااسلامیہ“ کے عنوان سے جو نظم لکھی، اس میں مسلمانوں کے جاہ وجلال، ان کی عظمت رفتہ اور ممالک اسلامیہ کے مرکزی مقامات دلی، بغداد، قرطبہ اور قسطنطینیہ کو تمام تر علوم وفنون اور تہذیب وثقافت کا مرکز اور سر چشمہ قرار دینے کے باوجود ان سب کو ” خواب گاہ مصطفی “ حجاز اورمدینہ منورہ کے تقدس اور عظمت و جلال کے سامنے ہیچ اور کمتر تصور کرتے ہیں اور اس کو خاتم ہستی میں نگینے سے تشبیہ دیتے ہیں، کیوں کہ اس کی آغوش میں شہنشہاہ معظم اور اقوام عالم کا ماوا وملجا اور رہبر انسانیت آسودہ خواب ہے۔​
وہ زمیں ہے تو ، مگر اے خواب گاہ مصطفی​
دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا​
خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں​
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں​
وہ اگر چہ اپنے جسم وجثے کے ساتھ حجاز مقدس میں فروکش نہ ہو سکے، لیکن ان کے تخیلات کا طائر ہمیشہ مکہ او رمدینہ کی فضاوٴوں میں ہی محو پرواز رہتا تھا۔ عشق نبوی کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ حجاز اقدس کی زیارت اور روضئہ اطہر کی زیارت کا کلمہ ہر وقت ان کے ورد زبان رہتا تھا۔اقبال کسی ایسی ہوا کے انتظار میں تھے جو انھیں مکہ او رمدینہ کی مقدس وادیوں کی غبار تک پہنچادے اروہ وہیں کی کنکریلی اور پتھریلی خاک کا پیوند بن جائیں کہ ایک سچے عاشق کے لیے غم دوراں سے نجات اور وصل محبوب کا یہی ایک راستہ ہوسکتا ہے۔​
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال​
اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجازکرے​
اوروں کو دیں حضور یہ پیغام زندگی​
میں موت ڈھونڈتاہوں زمین حجاز میں​
بال جبریل کے ایک قصیدے کے درج ذیل شعرمیں لفظوں کے انتخاب اورجملوں کی متناسب نشست نے وہ جامعیت پیدا کردی ہے کہ اس پر طویل تحقیقی مقالے قربان کیے جاسکتے ہیں۔​
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر​
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسیں وہی طاہا​
اقبال کے پیغام کا نچوڑ او رماحصل نظریہ خودی میں سما گیا ہے۔ خودیایک سادہ لفظ ہے، مگر اس کی گہرائیوں میں اتریے تو وہ ایک بحر ناپیدا کنار ہے۔خودی کے ترکیبی عناصر کیا ہیں۔ خودی کی تربیت کے کتنے مراحل ہیں، مرد کامل اور مرد مومن کو کن صفات کا مرکز ومحور ہونا چاہیے۔ اقبال نے خودی کے فلسفے کی طولانی بحثوں کو تمام مالہ اورماعلیہ کے ساتھ ان دو شعروں کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔​
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی​
خودی کی خلوتوں میں کبریائی​
زمین وآ سمان و کرسی وعرش​
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی​
حیات نبوی ﷺ میں معراج نبوی کی جو اہمیت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ یہ صر ف ایک نبی کی جسمانی معراج ہی نہیں تھی، بلکہ اس کے دروں میں انسان کی عظمت اور اس کی بلندی کا پیغام بھی پوشیدہ ہے۔ کیا زمین وآسمان، کیا برگ وشجر،اور چاند ستارے، سارے جن و ملائکہ انسان کی عظمت ورفعت کے سامنے ہیچ ہیں۔​
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے​
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں​
علامہ اقبال راہ نبوی میں عشاق کے قافلے کو رہزنوں کے ذریعے لوٹ لیے جانے کو بھی باعث صد افتخار تصور کرتے ہیں۔ اب تو سعودی حکومت کی زبردست حفاظتی خدمات کی وجہہ سے حجاز مقدس کا راستہ پر امن ہو گیا ہے،مگر آج سے چودہ سو سال کا سفر مکہ کسی سند باد کے پر خطر سفر سے کم نہ تھا۔ یہی وجہہ تھی کہ بہت سے لوگ ’ محمل شامی‘ کی معیت میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے ، لیکن علامہ اقبال خوف اور شوق کی کشاکش کو بیان کرتے ہوئے ا س سفر کے خطرات کو بھی بخوشی انگیز کرنے کا در س دیتے ہیں اور اس سفر میں اگر اپنی حقیر سی متاع حیات بھی قربان ہوجائے تو کوئی پروا نہیں کرنا چاہیے کہ اس کا اصلی نشیمن تو راہ شوق میں قربان ہوجانا ہے۔ عشق نبی سے سر شار قلب میں اسی قسم کے تصورات جاگزیں ہو سکتے تھے۔ ” ایک حاجی مدینے کے راستے میں “ یہی کچھ کہتے ہیں:​
خوف کہتا ہے کہ ” یثرب کی طرف تنہا نہ چل“​
شوق کہتا ہے کہ ” تو مسلم ہے بیباکانہ چل“​
گو سلامت محمل شامی کی ہمراہی میں ہے​
عشق کی لذت مگر خطروں کی جاں کاہی میں ہے​
علامہ اقبال مشہور غزلیہ استعارہ باد صبا کے ذریعے بھی اپنا پیغام او راپنے دل کا حال اپنے محبوب سرور کائنات ﷺ تک پہنچانا چاہتے ہیں کہ مصیبت کے وقت اور مایوسی کے عالم میں یہی ایک قدرتی سہارا انسان کے پاس باقی رہ جاتا ہے۔بانگ دار کی ایک غزل میں کہتے ہیں:​
اے باد صبا کملی والے سے جاکہیو پیغام مرا​
قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی​
اور کبھی کبھی اپنے محبوب سے شکوہ سنجی بھی کرتے ہیں کہ محبت کا اونچا اور اعلی ترین مقام یہی ہے۔ اے روح محمد ﷺ کا یہ اشعار دیکھیے:​
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر​
اب توہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے​
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد​
آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے​
اقبال اپنے عمیق مطالعے اور مبنی بر تجزیہ مشاہدے کی بنیاد پر اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ امت مسلمہ کی زبوں حالی اور ان کی مذہبی وسماجی مشکلات کے حل کی کلید ذات نبوی اور اسوئہ رسول میں پوشیدہ ہے۔ ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہمیں اس لیے دے مارا کہ ہم نے اپنے اسلاف کی میراث گنوادی ۔ علامہ اقبال ہر مصیبت اور پریشانی کے وقت در نبوی پر اپنی جبین نیاز خم کرتے ہیں۔ ان کے تصور سے اپنے مشام جان کو معطر کرتے ہیں اور انھیں کے پرنور مرقد سے دستگیری کی التجا کرتے ہیں۔ علامہ اقبال حضور رسالت مآب کے در دولت پر ہی اپنا دکھڑا سناتے اور اپنی بے کلی اور بے چینی کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ بانگ دار کی نظم”خطاب بہ نوجوانان اسلام“ میں انھوں نے مسلم نوجوانوں کو انھی اسلامی خطوط پر غور وفکر کرنے اور انھیں ا پنے بھولے ہوئے ماضی کو یاد کرنے کی تلقین کی ہے کہ اسی راہ سے امت مسلمہ کے درد کا مداوا کیا جاسکتا ہے اور اس کو زندگانی کی پرخار وادیوں سے بآسانی نکالا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال عظمت رفتہ کی بازیابی اور دنیا کے منظرنامے پر اپنی موجودگی درج کرانے کے لیے حضور رسالت مآب ﷺ کے منہاج ومزاج کی پیروی اور ان کے اسوئہ حسنہ کی اتباع کو لازمی قدر قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اسوئہ حسنہ کی مکمل اتباع اور آپ کے نقش قدم کی پیروی میں ہی دنیا اور آخرت کی یقینی کامیابی اور سر خروئی کا راز مضمر ہے، جواب شکوہ میں خدائی وعدے کی یاد دہانی کراتے ہوئے یوں نغمہ سر ا ہیں:​
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیںیہ جہاں کیا چیز ہے لوح وقلم تیرے ہیں


*ABRAR AMAD​
ROOM NO. 21, LOHIT HOSTEL​
JNU, NEW DELHI, 110067​
اس مضمون کی تیاری میں اقبال اور محبت رسول، موٴلفہ ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی، مطبوعہ اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۷۷ء سے بھرپور مدد لی گئی ہے۔للہ موٴلف کو جزائے خیر سے نوازے۔

Thursday, 2 January 2014

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت: میلہ پھول والوں کی سیر

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت: میلہ پھول والوں کی سیر
                                                                             
تین ہزار سال سے زیادہ قدیم شہردہلی کی پیشانی پر ماضی کی عظمتوں کے نقوش کندہ ہیں۔ دہلی ایک شہر ہی نہیں،  مشرقیت سے عبارت بین الاقوامی تہذیب وتمدن کا جلی عنوان بھی ہے۔ مغلیہ عہد کی یادگار عمارتیںقطب مینار، لال قلعہ، جامع مسجد، ہمایوں کا مقبرہ اور انگریزی عہد سے منسوب راشٹر پتی بھون، انڈیا گیٹ جیسے عالمی شہرت کے حامل مقامات کو اپنی گود میں لیے ہونے کی وجہ سے دہلی عالم میں انتخاب کہلاتی ہے۔ اورعالمی راثت کے حامل شہروں کی فہرست میں اندراج کی چوکھٹ پر دستک دے چکی ہے۔ دستور اور آئین کی روشنی میں میسر حقوق کی بناء پرہمارا ملک ہی جمہوری اور سیکولر اقدار کا علم بردار ہے، لیکن دہلی نے جمہوریت اور سیکولرازم کے اصول کی پاسدار ی اور اس کو فروغ دینے میں ملک کے دوسرے شہروں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے۔ یہاں ہندو، مسلمان، سکھ ، پارسی، عیسائی، جین اور بودھ سبھی بھائیوں کی طرح بستے ہیں۔ پانڈؤوں اور مغلوں کے زمانے سے لے کر دہلی کی موجودہ تاریخ کے مدو جزر پر نظر ڈالیے،  تو پتہ چلے گا کہ سارے فرقے نے اپنا خون جگر پلاکر اس شہر کو سیراب کیا ہے۔
 جمنا کے دائیں کنارے آباد اس شہر کے مقام پر دوسرے ناموں سے تقریبا پندرہ شہر آباد ہو چکے ہیں۔ یہاں کئی سلطنتیں قائم ہوئیں، رعب وجلال والے مختلف بادشاہوں نے اس پر حکومت کی، فاتحانہ جذبوں اور جنگی خواہشات کی تکمیل میں اس شہر کا تقدس اور وقار بار بار پامال ہوا، محمد شاہ اورنادر شاہی جنرل احمد شاہ نے ہی صرف اس شہر کوتاخت وتاراج نہیں کیا، بلکہ مرہٹوں، جاٹوں، سکھوں اور روہیلوں نے بھی اس کی عزت وآبرو سے کھلواڑ کیا۔ دہلی اجڑتی اور بستی رہی ، مگر دہلی کی تہذیب، اس کی اقدار اور وضع داری ،اور اس کے عالمی تمدن پر کبھی موت طاری نہیں ہوئی۔ جو دہلی آتا وہ دہلی کے فن وثقافت اور اس کی گلیوں اور حویلیوں پر اس قدر فریفتہ ہوتاکہ یہیں کا ہوکر رہ جاتا، ابراہیم ذوق نے اسی لیے تو کہا تھا:
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں کی چھوڑ کر
دہلی ہمیشہ سے مختلف قوموں، متنوع نسلوں اور کئی مذہبی اکائیوں کا گہوارہ رہی ہے۔ قرون وسطی کے حکمرانوں اور مغلوں نے تہذیبی مماثلت اور قومی یک جہتی سے عبارت دہلی کی اس شانداتہذیب کو نہ صرف بڑھاوا دیا، بلکہ فراخ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے نقش ونگار میں گراں قدر اضافہ بھی کیا۔ مذہبی رواداری، بقائے باہم، قومی یک جہتی، تہذیبی یکسانیت اور ایک دوسرے کے رنج وغم میں شرکت ا س شہر کی تاریخ رہی ہے۔ شاہان ہند نے نہ صرف مشترکہ تہذیب وثقافت کی جم کر حوصلہ افزائی کی، بلکہ مذہبی حدود کو توڑتے ہوئے، غیر مسلم عورتوں سے شادی کرکے انھیں اپنے محل سرا میں مناسب جگہ دی۔ انھوں نے ہندو اور مسلم کے درمیان تفریق اور امتیاز کو کبھی روا نہیں رکھا۔ مسلم بادشاہ جس طرح عید، محرم اور دوسرے درباری تہواروں میں شریک ہوتے تھے، اسی طرح غیر مسلموں کے تہوار ہولی اور دیوالی میں بھی شرکت کو اپنا قومی اور وطنی فریضہ تصور کرتے تھے۔ تاکہ کسی قوم کے اندر تعصب اور مذہبی بنیاد پر تفریق کی شکار نہ ہو۔ اور ملک امن وسلامتی کے ساتھ ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن رہے۔
دہلی کے چنندہ تہواروں میں سے ایک تہوار پھول والوں کی سیر یا سیر گل فروشاں بھی ہے، جومابعد آزادی،  اپنے آغاز ثانی سے لے کر آج تک مسلسل دہلی میں حکومتی سطح پر منایا جاتا ہے ، اس کی افتتاحی اور اختتامی تقریب میں ہمارے قومی حکمراں اور افسران خندہ پیشانی کے ساتھ شریک ہوتے اور اس کا اہتمام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔  یوں تو دہلی میں حکومتی سطح پر بہت سے تہوار آج بھی جوش وخروش کے ساتھ منائے جاتے ہیں، جن میں مذہبی تہوار بھی ہیں اور غیر مذہبی بھی، لیکن پھول والوں کی سیر کو ان تمام تہواروں میں اپنی رنگا رنگی کی وجہ سے جو امتیاز اورمقا م حاصل ہے، وہ دوسرے تہواروں کو حاصل نہیں۔ یہ ایسا سالانہ تہوار ہے، جس میں دہلی کی صدیوں پرانی مشترکہ تہذیب کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اس میلے سے دہلی کی شناخت قائم ہے۔ غالب نے صحیح کہا تھا:’’مغل سلطنت کے دارالحکومت دلی شہر کی شناخت چار چیزوں سے تھی، جن میں سے ایک پھول والوں کی سیر بھی تھی۔‘‘
پھول والوں کی سیر ایک تاریخی میلہ ہے، ایسا میلہ جس کے آغاز وابتداء کی پوری کہانی شاہی ادورا میں مرتب ہونے والی تاریخوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ محفوظ ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ متحدہ ہندستان کے مشہور بادشاہ اکبر شاہ ثانی( عہدحکومت:۱۸۳۷- ۱۸۰۶ ء)کے چہیتے بیٹے مرزا جہاں گیر نے لال قلعے میں مقیم ایک انگریز ریزیڈنٹ اسٹین کو کسی ناگوار خاطر بات پر طمانچہ رسید کردیا۔ اس فرنگی کو صاحب عالم کی یہ حرکت پسند نہ آئی۔ اس وقت بادشاہ وقت انگریزوں کے وظیفہ خوار تھے۔ لال قلعہ کے تخت طاؤس پر متمکن تو اکبر شاہ ثانی تھے، مگر حکم کمپنی بہادر کا ہی چلتا تھا۔  انگریز نے اس ہتک آمیز واقعے کی پوری تفصیل کمپنی کو لکھ بھیجی ، تنبیہ کے طور پر یہ سزا تجویز ہوئی کہ تربیت کے لیے شاہزادے مرزا جہاں گیر کو نظر بند کرکے الہ آباد بھیج دیا جائے۔ جہاں گیر کی ماں نواب ممتاز محل کو اپنے لخت جگر کی جدائی کس طرح راس آتی۔ رو رو کر ا ور کلیجہ پیٹ کر ان کا برا حال ہو گیا، مگر کمپنی کے حکم کے سامنے بادشاہ کیا، کسی کو بھی چوں چرا کرنے کی ہمت نہ تھی۔ مہارانی نے خدا کے حضور یہ منت مانی کہ جب ان کے نورنظر مرزا جہاں گیرکو الہ آباد سے رہائی ملے گی، تو وہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائیں گی۔ خدا کے فضل و کرم سے مرزا جہاں گیر اسٹین کے ہی حکم سے رہا ہوکر بسلامت قلعۂ معلی لوٹ آئے۔ خوشی میں الہ آباد سے لے کر دہلی تک پورے راستے میں شاہی طرز پر ان کا زوردار استقبال کیا گیا اور خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ حسب منت بیگم نے اپنی منت پوری کرنے کے لیے شاہی آن بان اور ڈھول تماشے کے ساتھ آستانۂ پاک پر چادر چڑھائی ۔ اس مخصوص درباری تقریب میں شہر دہلی کے ہندو اور مسلمان دونوں نے شرکت کی، مہرولی میں کئی دنوں تک میلہ لگا رہا۔کیا ہندو اور کیا مسلم، سبھی ایک دوسرے کے بغل میں ہاتھ ڈالے، منھ میں پان کی گلوری ڈالے مٹر گشتی کرتے پھرتے تھے۔ بیگم اوربادشاہ وقت کو  پھولوں پر مشتمل چادر چڑھانے کی یہ تقریب اور ہندو مسلمانوں کا مشترکہ میلہ بڑا پسند آیا اور دربار میں یہ تجویز پاس ہوئی کہ یہ میلہ ہر سال بھادوں کے مہینے میں لگایا جائے۔ مہیشور دیال صاحب نے اس میلے کے تاریخی پس منظر پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:’’بادشاہ کو یہ میلہ اتنا پسند آیا کہ انھوں نے یہ تجویز کی کہ ہر سال بھادوں کے شروع میں یہ میلہ ہوا کرے اور مسلمان درگاہ شریف پر پر پنکھا چڑھائیں اور ہندو جوگ مایا جی کے مندر پر ، مگر دونوں ہی جگہوں پر ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوں۔‘‘( عالم میں انتخاب- دلی، ص: ۴۹۲، اردو اکادمی دہلی، ۲۰۰۹ء)یہاں یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ راجا یدھسٹر کے عہد کے تعمیر شدہ جوگ مایاجی کے مندر کی از سر نو تعمیر بھی اکبر شاہ ثانی نے کرائی تھی۔
اس طرح پھول والوں کے اس میلے کا آغاز ہوا، جس کو مؤرخین سیر گل فروشاں کے نام سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔ آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر( عہد حکومت: ۱۸۵۸- ۱۸۳۷ء) نے ہندو اور مسلمان کے مابین مودت ومحبت اور قومی یک جہتی کے تصور کو فروغ دینے کے لیے اس تہوار میں اتنی دل چسپی کا مظاہرہ کیا کہ اپنی حین حیات انھوں نے اس میلے کوترقی کی معراج پر پہنچادیا۔ شاہان وقت اتنے انصاف پسند اور عدل پرور ہوتے تھے کہ وہ جوگ مایا مندر اور خواجہ کے مزار دونوں جگہ خود حاضر ہوتے تھے اور اگر کسی وجہ سے پھول والوں کے قافلے کے ساتھ پہلے دن جوگ مایا مندر میں حاضری ان کے لیے ممکن نہ رہتی تو وہ اگلے روز خواجہ کی درگاہ پر بھی نہیں جاتے تھے، تا کہ ہندو مسلم کسی فریق کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک بار مسلمان بہادر شاہ ظفر کے سامنے بضد ہوگئے کہ قطب صاحب کی درگاہ حضور کی قیام گاہ سے قریب ہے، ہمارے پنکھے کے جلوس کے ساتھ چند قدم چلے چلیں، توانھوں نے کہا:’’کل ہندؤوں کے پنکھے کے ساتھ گیا ہوتا تو تمھارے پنکھے کے ساتھ ضرور چلتا۔ آتش بازی ہندو مسلمان دونوں کی طرف سے چھوٹے گی اس میں شریک ہوں گا۔‘‘(دلی جو ایک شہر تھا، ص:۱۶۹، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۲۰۰۳ء)
مہینے بھر چلنے والے اس میلے کی بھرپور عکاسی مہیشور دیال کے ان جملوں سے ہو جاتی ہے۔ لکھتے ہیں:’’مہرولی میں مہینوں پہلے سے ٹھہرنے کے بندو بست کیے ہوتے، مکان، کوٹھے، کوٹھریاں، باغ باغیچے سب آباد ہوجاتے۔ تل دھرنے کو جگہ نہ رہتی۔ مہرولی کے بازار کی کایا پلٹ جاتی۔ دکانیں خوب سجتیں۔ دکانوں کے اوپر کوٹھے بھی بڑے قرینے سے سجائے جاتے تھے۔ جھاڑ فانوس، ہانڈیاں لٹکائی جاتی تھیں۔ یار لوگ نہایت نفیس کپڑے پہنے جوئی کے کنٹھے اور موتیا کے ہار گلے میں ڈالے، عطر کے پھوئے کان میں اڑسے، پان چبائے، حقے کا دم لگاتے۔ سیر کا لطف اٹھاتے گھومتے پھرتے۔ بھیڑ اتنی ہوتی کہ کھوئے سے کھوا چھلنے لگتا اور گزرنا مشکل ہو جاتا۔‘‘( عالم میں انتخاب- دلی، ص: ۴۹۵)
شاہی دورختم ہوگیالیکن جوگ مایا مندر اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھانے کی یہ تقریب آج بھی زندہ ہے۔
۱۸۵۷ء کی شکست و ریخت اور خون خرابے نے دہلی کی دوسری روایتوںاور ان کے تاریخی حسن وجمال کو متأثر کیاہی، انگریزوں کی سماج دشمن پالیسی اور ہندو مسلم کے درمیان شر انگیزی کی مہم سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کا نمونہ میلہ پھول والوں کی سیر بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ بہادر شاہ ظفر کے رنگون جلا وطن کردیے جانے کے بعد یہ میلہ ضرور جاری رہا، مگر بادشاہ کی سرپرستی اور ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے جو رونق، چہل پہل، شان وشوکت،  اخوت و بھائی چارگی اور اتحاد ویک جہتی کی جومسرت بخش فضا قائم رہتی تھی، وہ سب ماضی کی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اس میلے کا وہ زور وشور باقی نہ رہا جس کے لیے یہ میلہ دہلی کے ہندو مسلم، بوڑھے، جوان، بچوں، عورتوں اور شاہ وگدا میں مشہور تھا۔مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد اگلے ساٹھ ستر سال کے عرصے نے اس روایت کو اتنا کمزور کردیا کہ ہندستان چھوڑو تحریک کے نتیجے میں اس کے باضابطہ بند کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ لیکن جب برطانوی سامراج کے خلاف ہماری مشترکہ کوششوں سے وطن عزیز ہندستان کو انگریزوں کے ناپاک سایے سے نجات مل گئی ، تو نہ صرف دہلی نے کھلی اور صاف فضا میں دوبارہ امن وسکون کی انگڑائی لی، بلکہ ہندو مسلم دوستی کے پرانے اور تاریخی رشتوں کو بحال کرنے کی فکر بھی سرکاری پیمانے پرتیز ہوگئی۔ ملک ضرور دو لخت ہو گیا تھا، لیکن ہندستانیوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت، خیر سگالی پر مبنی جذبات اور قلبی یگانگت کا جو فطری جذبہ تھا، وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ چنانچہ آزاد ہندستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہرلعل نہرو نے اس میلے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ۱۹۶۲ء میں اس کو دوبارہ شروع کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کی تاریخ میں بھی تبدیلی کردی گئی، اب برسات کے بجائے اس کے انعقاد کے لیے ماہ اکتوبر کا انتخاب کیا گیا۔ اسے تاریخی اتفاق ہی کہا جائے گا کہ یہی سال آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سواں یوم وفات بھی تھا۔
  اس قدیم تہوار کے ازسر نو احیاء کے حوالے سے انجمن سیر گل فروشاں سوسائٹی نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔  بادشاہ، حشم وخدم اور شہزادے شہزادیوں کا تصور تو قصۂ پارینہ بن گیاہے، اور اگرچہ مغلیہ دور جیسی برادرانہ فضا پر مبنی طلسماتی کیفیت کی بحالی ممکن نہیں رہی ہے،  لیکن دہلی حکومت اور موجودہ انتظامیہ کی کوششوں کو نہ سراہنا بڑی نا انصافی ہوگی، کیوںکہ مغلیہ دور کے بادشاہ جس طرح شاہی دھوم دھام کے ساتھ منھ اندھیرے مہرولی پہنچ کر اس تاریخی تقریب کا اہتمام کیا کرتے تھے، دہلی حکومت نے حوصلے سے کام لیتے ہوئے ان روشن رو ایتی نقوش کی تابندگی اور درخشندگی میں اضافہ کرنے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یہ تہوار ہمارے مشترکہ تہذیبی وراثت کی یادگار ہے، آج بھی اس تہوار کے موقع پر جہاں مہرولی میں خواجہ قطب الدین بختیارکاکی کی درگاہ پر پھولوں کی چادر چڑھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، وہیں قریب میں ہی واقع جوگ مایا مندر میں بھی پھولوں کا پنکھاپیش کیاجاتا ہے۔ مشترکہ ثقافت اور قومی یک جہتی کو فروغ دینے کے حوالے سے پھول والوں کی سیر کا یہ میلہ دوسروں کے لیے بھی مشعل راہ اور امن کا پیغام بر ثابت ہوا، دوسری ریاستیں بھی اس تہوار کے لیے روایتی پنکھا بھیج کر ہندو مسلم اتحاد کی اس علامت کو زندہ رکھنے میں اپنا بھرپور تعاون دے رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ۲۰۱۱ء میںیہ ہفت روزہ تہوار ۲۸؍ نومبر کو گورنر ہاؤس سے شروع ہو ااور اس کا اختتام ۳؍ نومبر کو مہرولی میں درگاہ پر چادر چڑھانے کی تقریب پر ہوا۔ اکیسویں صدی اطلاعاتی انقلاب کی صدی ہے،  ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ: ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے توسط سے مشترکہ تہذیب و ثقافت کے ترجمان اس میلے کے ، بھائی چارے پر مبنی پیغام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچایا جا سکتا ہے۔
*ABRAR AHMAD
ROOM NO, 21, LOHIT HOSTEL
JNU, NEW DELHI 110067