Sunday, 12 October 2014

مجاہد اردو مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی(۱۹۰۱-۱۹۶۲ء)

جنھیں ہم نے فراموش کردیا


ابرار احمد اجراوی*
بیسویں صدی کے مشہور عالم دین ، مجاہد آزادی اور سیاسی رہ نمامولانا حفظ الرحمن سیوہاروی عالمی اسلامی درس گاہ دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ تھے۔ انھیں مایہ نازمحدث ، فخر زمانہ علامہ انور شاہ کشمیری کا شرف تلمذ حاصل تھا۔ رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعدانھوں نے بھی اپنے اسلاف اور اساتذہ کے نقش قدم پر تدریسی زندگی اختیار کی، مگر شاید یہ خالق کائنات کو مقصود نہ تھا، مولانا سیو ہاروی توپوری امت مسلمہ کی سماجی اور سیاسی اصلاح کے لیے پیدا ہوئے تھے، اس لیے وہ صرف واجبی تعلیم تک اور صرف مدارس کی چہار دیواری میں محصور ہوکر نہ رہے،انھوں نے قصہ قدیم و جدید کو دلیل کم نظری تصور کیا، انھوں نے علم و فن کی صاف ستھری ہواؤوں کے استقبال لیے اپنے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھیں،میدان سیاست میں بھی طبع آزمائی کی، انگریزوں کے چنگل سے وطن عزیز کو آزاد کرانے کے لیے جنگ آزادی میں حصہ لیا، تقسیم ہند کے بعد، فرقہ وارانہ فسادات میں دلی والوں پر جو قیامت ٹوٹی، اس الم ناک موقع پر مولانا دہلی والوں کے لیے شجر سایہ دار بن کر نمودار ہوئے، ایک وفا دار سپاہی کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ کر فرقہ پرستوں کا مقابلہ کیا، اپنی زبر دست قومی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں دستور ساز اسمبلی میں ممبر منتخب ہوئے، جمہوری اور سیکولر آئین وضع کرنے میں خاص رول ادا کیا، ملک میں جمہوریت نافذ ہوئی اور جو پہلی پارلیمنٹ بنی اس میں مولانا بھی ممبر پارلیمنٹ بنے، انھوں نے تین میقات کے لیے امروہہ کے مسلمانوں کی نمائندگی کی اور تینوں ہی بار مسلمانوں کے حقوق کی بحالی اور حکومت کو دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی حقوق کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کے تعلیمی، معاشی اور مذہبی حقوق کی بحالی کے لیے تو کوشش کی ہی، تقسیم ہند کے زخموں سے چور اور سیاسی تعصب کا شکاراردو زبان کے لیے بھی انھوں نے جی توڑ کوشش کی۔ انھوں نے تینوں میعاد میں نہ صرف ایوان پارلیمنٹ کے اندر ، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی اردو کے حقوق کی بحالی کے لیے مجاہدہ ومباحثہ کیا۔ انھوں نے اردو کو دیس نکالا دینے کی کوششوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور پاکستان کی آڑ میں جو فاشسٹ عناصر اردو کو اس کے لسانی حقوق سے محروم کرنے کے سیاسی حربے آزمایا کرتے تھے، ان تمام کا منہ توڑ جواب دیا۔
آزادی اور تقسیم ہندسے قبل تک ملک کی قومی زبان کے تعلق سے کانگریس اور گاندھی جی دونوں کا نظریہ واضح تھاکہ آزاد ہندستان کی زبان وہ عام فہم ہندستانی ہوگی ، جو شمالی ہندکے بڑے خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کا رسم الخط اردو اور دیو ناگری دونوں ہوگا۔ لیکن ملک کی آزادی اور تقسیم ہند کے بعد سارے مسلمہ اصول اور ماضی کے سارے وعدے ارادے کالعدم کردیے گئے اور اس مجوزہ عام فہم ہندستانی کی جگہ ہندی زبان کو قومی زبان بنانے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ یکم دسمبر ۱۹۴۹ء کو کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی میں جب قومی زبان کا مسئلہ درپیش ہوا ، تو کانگریس اپنے سابقہ قول و قرار سے انحراف کرتے ہوئے ، شدت پسندوں کے سامنے سر بسجود تھی اور ہندی کو قومی زبان بنانے پر تلی ہوئی تھی، بہت کم لوگ گاندھی جی کے نظریے سے متفق تھے، مولانا سیو ہاروی بھی انھی لوگوں میں سے ایک تھے، جو گاندھی جی کے نظریے کو ہی صحیح مانتے تھے۔ مولانا کے علاوہ ، مسٹر رفیع احمد قدوائی اور مولانا کے دست راست آں جہانی خورشیدی لال ہندستانی کی حمایت کر رہے تھے۔ مولانا صرف اکیلے ہی نہیں، بلکہ اپنے ایک ایک حامی کو ڈھونڈ کر لاتے اور اس حوالے سے اتنے مضطرب اوربے چین تھے کہ کہیںکانگریس نام نہاد اکثریت کے سامنے اپنے سابقہ نظریے سے منحرف نہ ہوجائے۔ لیکن جب عددی اکثریت کے ساتھ ہندستانی کو نظر انداز کرکے ہندی زبان کو قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا، تو مولانا سخت ملول اور رنجیدہ تھے، انھوں نے اس پر زبردست احتجاج کیا۔اور قومی زبان کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے کانگریس کو خوب کھری کھوٹی سنائی، انھوں نے کہا:
’’
تیس سال تک کانگریس کے پلیٹ فارم سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس ملک کی زبان ہندستانی ہوگی ،جو فرانٹیر تک شمالی ہندستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور زبان کا رسم الخط ہندی اور اردو ہوگا۔ مہاتما گاندھی بھی آخر تک اسی زبان کے حامی رہے، لیکن آج میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ ہم نے کانگریس اور مہاتما گاندھی کے اس اصول کو ٹھکرادیا اور صرف ہندی زبان کو ملک کی قومی زبان بنانے پر زور دینے لگے۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ، مجاہد ملت نمبر، ص:۲۴۸، ۱۹۶۳ء)
مولانا کی تقریر سے پہلے چند متشدد لوگوں نے ہندی کی حمایت میں جو دلیل دی تھی، مولانا نے ان کی دلیلوں کو شواہد سے مسترد کرتے ہوئے گاندھی جی کے حوالے سے کہا:
’’
۳۰؍جنوری ۱۹۴۸ء کے بھیانک حادثے سے جب کہ مہاتما گاندھی جی ہم سے چھین لیے گئے، تین روز قبل انھوں نے دوران گفتگو مجھ سے فرمایا تھا کہ اب امن و امان ہوتا جارہا ہے، جس طرح تم لوگوں نے قیام امن کے سلسلے میں میری امداد کی، اسی طرح تمھیں ہندستانی کے پرچار میں بھی ساتھ دینا ہوگا۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۸)
مولانا سے پہلے سیٹھ گوووند داس نے ہندی کی حمایت اور اردو کی مخالفت میں تقریر کی تھی، مولانا اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’
سیٹھ گووند داس نے ابھی پہلے کہا کہ اردو میں ہندستان کی چیزوں کے مقابلے میں غیر ملکی چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے، یہ قطعی طور پر غلط ہے۔ اور استدلال میں محسن کاکوروی کا یہ شعر پیش کرتے ہیں کہ
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
بادلوں پر لیے پھرتی ہے ہوا گنگا جل
اس میںجتنے مقامات کا ذکر ہے وہ سب ہندستانی بلکہ خالص ہندو مذہب کے ہیں۔ اس میں نہ تو مدینہ کا دکر ہے اور نہ مکہ کا، نہ آب زم زم کا۔
سیٹھ گووند داس نے اپنی تقریر میں یہ اعتراض بھی کیا تھا کہ اردو کے لیے اس ملک میں اس لیے جائے قرار نہیں مل سکتی کہ کسی ایک ملک میں دو تہذیبوں کا ساتھ رہنا ممکن نہیں۔ در اصل گووند داس زبان کو تہذیب کی بنیاد منوانے پر تلے ہوئے تھے۔مولانا نے زبان کو تہذیب کی بنیاد قررا دینے کی منطق کو دلائل سے رد کیا اورورچھوٹے سے ملک سوئزر لینڈ کی مثال دیتے ہوئے ،جہاں چار زبانوں کو سرکاری حیثیت حاصل ہے، کہا:
’’
اگر تہذیب اور سنسکرتی کی بنیاد زبان پر ہے تو ہندستان میں ایک درجن سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ایک سنسکرتی کے لیے ان سب زبانوں کو ملیا میٹ کردینا چاہیے۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۹)
دسمبر ۱۹۵۵ء میں لوک سبھا میں حد بندی کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ پر بحث میں مولانا نے بھی حصہ لیا۔ اور انھوں نے پارلیمنٹ سے یہ اپیل کی کہ وہ دہلی، یوپی اور بہار میں اردو کو علاقائی زبان کی حیثیت سے تسلیم کرلے۔ انھوں نے یہ کہا کہ جس طرح جنوبی ہندستان میں زبان کے مسئلے کو اہمیت دی گئی ہے، شمالی ہندستان میں بھی اس کو اہمیت دی جائے۔ مولانا اس کے بھی حامی تھے کہ اگر ایک اسٹیٹ میں دو یا تین زبانیں بھی ہیں تو ان سب کو سرکاری حیثیت دی جائے۔ اردو کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’
اگر اردو کو کوئی علاقہ دیا جائے گا تو اس سے ہندی کو نقصان پہنچے گا، اس پر مجھے اختلاف ہے۔ ہماری چودہ زبانیں ہیں، جس طرح بنگلہ، گجراتی، مراٹھی، تمل، ملیالم وغیرہ کو اسٹیٹ لنگویج کی حیثیت دی جاتی ہے، اسی طرح کیا وجہ ہے کہ اردو کے مسئلے میں وہی پوزیشن اختیار نہیں کی گئی۔۔۔۔جس طرح دوسری زبانوں کے علاقے ہیں، جن میں کہ وہ زبانیں سرکاری حیثیت پاکر پھیلیں گی اور پھولیں گی اسی طرح اردو بھی سرکاری حیثیت پاکر پھلے گی پھولے گی۔ ۔۔۔جس طرح اور زبانوں کے پاس علاقے ہیں اسی طرح اردو کے لیے بھی ایک علاقہ ہونا چاہیے۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۲۵۴)
اسی بحث میں تقریر کرتے ہوئے شری پرشوتم داس اور سیٹھ گووند داس نے پاکستان اور مسلم لیگ کے بہانے اردو کی زبر دست مخالفت کی، مولانا نے کہا کہ ان کا اردو مخالف رویہ ملک اور قوم کے ساتھ ایوان جمہوریت کے لیے بھی باعث تکلیف ہوگا۔ مولانا نے ان شدت پسندوں کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’
اردو کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرلینے کے باوجود کہ ہندی راشٹریہ بھاشا ہے اور پورے ملک کی سرکاری زبان تسلیم کرلی گئی ہے۔ آیا اردو زبان کو یا دوسری علاقائی زبانوں کو اس ملک میں پھلنے پھولنے کا حق ہے یا نہیں؟۔۔۔جو لوگ اردو کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں جیساکہ ٹنڈن جی کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے یا جو لوگ اس کو انگریزی کی طرح دیس نکالا دینا چاہتے ہیں، جیساکہ سیٹھ گووند داس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے، یہ دونوں باتیں اس ملک میں نہیں ہونے دی جائیں گی۔ان کا ڈٹ کرمقابلہ کیا جائے گا۔ ۔۔۔ٹنڈن جی کا یہ فرمانا کہ یوپی میں جو تحریک اردو کے بارے میں چلائی جا رہی ہے،وہ بھارتیہ کلچر کے خلاف فرقہ پرستی کی تحریک ہے اور دوسرے پاکستان یا دوسرے مسلم لیگی نظریے کو زندہ کرنا ہے، میرے نزدیک ہی نہیں بلکہ پورے ہاؤس کے نزدیک اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ میں ٹنڈن جی اور سیٹھ جی دونوں سے گزارش کروں گا کہ اردو کی تحریک کو جس طرح ہم لوگ چلا رہے ہیں، وہ صرف مسلمانوں کی نہیں ہے۔ وہ ہندو مسلمان سکھ عیسائی اور یوپی کے بسنے والے ہر آدمی کی، جو اردو سے تعلق رکھتا ہے، ملی جلی تحریک ہے۔‘‘(مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:ایک سیاسی مطالعہ ، ص:۴۰۴، ابو سلمان شاہ جہاں پوری، فرید بک ڈپو نئی دہلی، ۲۰۱۱ء)
فرقہ پرست عناصر تو اردو کو دیس نکالا دینے کے لیے کسی ادنی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور لچر سے لچر دلیل کا سہارا لینے کی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ انھوں نے تاریخی حقائق سے یک سر منہ پھیر لیا اورمشترکہ تہدیب و ثقافت کی زبان اردو کوہی پاکستان کا خالق قرار دے دیا۔اس وقت اتر پردیش میں جو اردو تحریک عروج پر تھی اور جس کے سالار قافلہ مولانا تھے،یہ لوگ اس کو ایک اور پاکستان کے مترادف کہتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ لوگ اردو کے مستقل وجود کو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے یہ عذرلنگ پیش کرتے تھے کہ اگر کسی ریاست میں اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دے دیا گیا تو اسی قسم کا مطالبہ ہر ریاست میں شروع ہوجائے گا جو ملک کی اجتماعیت اور اتحاد کے لیے شدید خطرہ کا اشارہ ہوگا۔ مولانا نے ان کی ان دلیلوں کو تار عنکبوت قرار دیتے ہوئے کہا :
’’
اگر آئین کے مطابق بہار، مدھیہ پردیش، مدھیہ بھارت اور دوسری ریاستوں میں ہندو، سکھ، عیسائی اور پارسی اردو بولنے والوں کی اتنی بڑی مقدار ثابت ہوجائے، جس کی بنا پر اردو کو سرکاری طور پر تعلیمی اداروں اور سرکاری عدالتوں میں سہولتیں حاصل ہوں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ کیا علاقائی زبانوں سے پاکستان بن جایا کرتے ہیں، اتنی لچر بات شاید اس ہاؤس میں کبھی نہیں کہی گئی ہوگی۔‘‘(مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی:ایک سیاسی مطالعہ، ص:۴۰۶)
مولانا روایتی قسم کے خشک مولوی نہ تھے، ان کو اردو زبان کی تاریخ، اس کا ہندستانی پس منظر اور اس کے عناصر ترکیبی کا بھی بھرپور علم تھا۔ چناں چہ جب بعض فرقہ پرست اور فسطائی دہنیت کے حامل ارکان پارلیمنٹ نے دسمبر ۱۹۵۵ء والی اسی لوک سبھا میں یہ اعتراص کیا کہ اردو زبان تو ہندستانی ہے، مگر اس کا رسم الخط تو ہندستانی نہیں، وہ دوسری غیر ملکی زبانوں سے مستعار ہے۔ تو مولانا نے بڑے ادب سے عرض کیا:
’’
کسی زبان کے رسم الخط کا دوسری زبان کے رسم الخط سے فائدہ اٹھانا کوئی عیب نہیں۔ سندھی زبان نے دوسری زبانوں سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن جو رسم الخط آج ہم ہندستان میں اردو کے لیے استعمال کر رہے ہیں، وہ عربی رسم الخط نہیں ہے۔ عربی رسم الخط سے ہم نے فائدہ ضرور اٹھایا ہے لیکن اس سے فرق پیدا کردیا ہے، جو عربی کا رسم الخط ہے اس کو نسخ کہتے ہیں اور جو اردو کا رسم الخط ہے اس کو نستعلیق کہتے ہیں۔‘‘(ایضا، ص:۲۴۵)
مولانا اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے مختلف ریاستوں میں بھی مہم چلاتے تھے۔ جب سہ لسانی فارمولے کی آڑ میں ریاست اتر پردیش میں اردو کو ختم کرنے کی سازش ہونے لگی تواس وقت مولانا امریکہ میں زیر علاج تھے۔ یہ سن کر مولانا بے چین ہوگئے اور انھوں نے بستر علالت سے وزیر اعلی شری سی، بی گپتا کو تنبیہی خط لکھا اور اس کی ایک نقل وزیر اعظم پنڈت نہرو کو بھی بھیجی، جنھوں نے اس خط کا زبردست نوٹس لیا اور اس کا جواب دے کر مولانا کو مطمئن کیا۔
مولانا نے صرف پارلیمنٹ کی چہار دیواری میں ہی نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی، جمعیۃ علماء ہند اور مختلف قومی و ملی اور لسانی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے اردو کے حقوق کے تحفظ اور اس کی بازیابی کے لیے انتھک جدو جہد کی۔۱۹۵۰ء میں مولانا انجمن ترقی اردو دہلی شاخ کی مجلس عاملہ میں شامل ہوئے اور ۱۲؍ سال تک تمام تر ضعف کے با وجود اس کی ہر میٹینگ اور اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔ مجلس عاملہ کی آخری میٹینگ منعقدہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۶۱ء میں بھی وہ بخار اور کھانسی کی شدید حالت میں کمبل لپیٹ کر شریک ہوئے۔ یہ تھا مولانا کا ارود کی خدمت کا جذبہ۔پارلیمنٹ کے باہر انھوں نے اردو کے حق کے لیے جو کام کیے اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے۔
۲۲؍مئی ۱۹۵۱ء کو انجمن ترقی اردو کے ایک وفد کے ہمراہ اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی شکایت لے کر مولانا سیوہاروی یوپی کے وزیر تعلیم سمپورنا نند سے ملے، اس وفد میںمولانا کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر حسین اور قاضی عبد الغفار بھی شریک تھے۔
۲۲-۲۳؍دسمبر ۱۹۵۱ء کو ڈاکٹر ذاکر حسین کی صدارت میں لکھنؤ میں جو کل ہند اردو کانفرنس ہوئی تھی، جس میںاردو کے قانونی حقوق کی بازیابی کے لیے ۲۰؍ لاکھ دستخط کی مہم کا فیصلہ ہواتھا، اس مہم کو انجام تک پہنچانے میں مولانا کا ہی بیش تر حصہ تھا۔اور جب جمعیتی کارکنان وغیرہ کی مدد سے ۲۰؍لاکھ دست خط پورے ہوگئے، تو پھر ۲۵-۲۶؍جولائی ۱۹۵۳ء کو لکھنؤ میں ہی اردو کی دوسری کل ہند کانفرنس ہوئی اور دستخطی مہم کی روداد صدر جمہوریۂ ہند کو پیش کرنے کا منصوبہ طے پایا، مولانا اس میں بھی پیش پیش رہے۔
۲۱-۲۲؍مارچ ۱۹۵۲ء کو اجمیر میں جو کل ہند کانفرنس قاضی عبد الغفار کی صدارت میں ہوئی، اس کا افتتاح مولانا نے ہی کیا۔
۱۵؍ فروی ۱۹۵۴ء کو انجمن ترقی اردو ہندکا ایک وفد ڈاکٹر ذاکر حسین کی سرکردگی میں صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد سے ملا اور یوپی میں اردو کو علاقائی زبان قرار دینے کے لیے ۲۰؍لاکھ دست خط کا گراں بار ریکارڈ انھیں سونپا گیا، اس میں دوسرے سربراہان ہندکے ساتھ مولانا بھی شریک تھے۔ملاقات کے بعد دوسرے روز وفد کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین اور پنڈت کشن پرشاد کول کے علاوہ مولانا نے بھی پریس والوں سے بات کی۔
۴؍ اگست ۱۹۵۶ء کو مولانا نے جے پور پہنچ کر راجستھان کے وزیر تعلیم اور ڈائریکٹر تعلیمات سے ملاقات کرکے راجستھان کے اسکولوں میں اردو کو نظر انداز کیے جانے کی شکایت کی۔
۱۵؍فروری ۱۹۵۸ء کو دہلی میں کل ہند اردو کانفرنس ڈاکٹر تارا چند کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس کا افتتاح پنڈت نہرو نے کیا اور مولانا آزاد نے اپنی زندگی کی آخری تقریربھی یہیں کی، اس کانفرنس کے منتظم اور صدر مجلس استقبالیہ مولانا سیوہاروی ہی تھے، چندے کی فراہمی کا بہت زیادہ بوجھ بھی مولانا نے ہی برداشت کیا۔آل احمد سرور اس کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں مولانا کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اپنے سیاسی کاموں کا حرج کرکے اس کانفرنس کے انتظامات کیے۔ انھی کی وجہ سے دہلی کی کانفرنس اتنی شان دار ہوئی کہ پنڈت جی آئے۔ مولانا آزاد نے کانفرنس کو خطاب کیا اور ہماری تحریک کا اثر پورے ملک نے محسوس کیا۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۳۳)کانفرنس کے بعد ۲۹؍ اپریل ۱۹۵۸ء کو نئی دہلی میں انجمن ترقی اردو کا دوسرا وفد دوسری بار صدر جمہوریہ سے ملا، دوسرے قائدین کے ساتھ مولانا اس میں بھی پیش پیش تھے۔
مولانا سیوہاروی نے بہت سے شان دار مشاعرے بھی کروائے۔دہلی اور اطراف دہلی میں منعقد ہونے والے اردو کے درجنوں مشاعروں میں شرکت کی۔ شعرا کے مابین معاصرانہ چشمک کے نتیجے میں جو ناچاقی اور کشاکش جنم لیتی ہے، اس کو ختم کرانے میں بھی مولانا ثالثی کا رول ادا کرتے تھے۔ اور دونوں متحارب گروپ کو اپنی خوش کلامی اور شیریں بیانی سے شیر و شکر کر دیتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ لال قلعہ کے تاریخی مشاعرے میں پیش آیا کہ اس میں معروف انقلابی شاعر جوش ملیح آبادی نے اپنی نظم میں سیاسی حالات پر تنقید کرڈالی، جس کے جواب میں ایک شاعر نے جوش صاحب کے خلاف قطعہ پڑھ دیا،جو کسی بھی طرح موزوں نہ تھا۔ جب منتظمین میں تنازع نے جنم لیا، مولانا نے حسن تدبیر سے ثالثی کرکے اس کو ختم کرایا۔
مولانا نے قولا و عملا ہر اعتبار سے مظلوم اردو زبان کو ہندستان میں لسانی نقشے میں مناسب جگہ دلانے کے لیے کوشش کی۔ اردو کی خدمت کا جدبہ مولانا کی رگوں میں خون بن کر گردش کرتا تھا۔ مولانا اردو کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے کتنے متفکر اور کوشاں رہتے تھے کہ اس وقت کے اردو داں اور پروفیسر حضرات بھی مولانا کی اس زبردست جدو جہد کے مداح بن گئے تھے۔ چناں چہ اس وقت کے انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری اور مشہور ادیب و ناقد آل احمد سرور مولانا کی اردو نوازی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’
اردو کی تحریک میں مولانا لیڈر کی حیثیت سے نہیں، سپاہی کی حیثیت سے انجمن کا کام کرتے تھے۔جہاں مولاناکی ضرورت محسوس ہوئی بھیج دیا جہاں دقت ہوئی مولانا نے سلجھا دی، جہاں اختلاف ہوا مولانا کی وجہ سے دور ہوگیا۔‘‘(روزنامہ الجمعیۃ مجاہد ملت نمبر، ص:۱۳۲)
اردو زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے مولانا کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ انھیں کسی ایک مضمون میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ اس موضوع پر ریسرچ و تحقیق کی ضرورت ہے۔ مولانا نے صرف سیاست کے اسٹیج سے ہی اردو زبان و ادب کی خدمت نہیں کی، بلکہ وہ سیاست کے جھمیلوں سے الگ ہوکر تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی جاری رکھتے تھے۔مولانا نے اردو زبان میں گراں قدر معلوماتی اور تاریخی کتابیں تالیف کرکے بھی اردو زبان کے گیسوئے برہم کو سنوارا ہے۔ ان کی تحریریں نرگسی عناصر سے نہیں، بلکہ حققیت و واقعیت اور اصلیت و صداقت کے عناصر سے لبریز ہوتی تھیں۔ وہ صاف، سلیس اور سادہ نثر لکھتے تھے۔ ان کے جملے انتہائی مختصر مگر بڑے بامعنی، چست اور ادبیت سے لبریز ہوتے تھے۔ اگر وہ میدان سیاست سے الگ رہ کر صرف قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ استورا رکھتے ، تو وہ آج اردو کے کثیر التصانیف مصنفین میں شمار ہوتے۔مولانا کی اردو نوازی سے اہل علم و ادب کا بڑا حلقہ نا آشنا ہے۔ جس اردو زبان کے لیے انھوں نے دن رات دیوانہ وار کام کیا، اسی زبان کی جب علاقائی اور قومی تاریخ لکھی گئی تو مولانا کو بالکل نظر انداز کیا گیا ۔ اردو اکادمی دہلی نے ’دلی والے‘ کے عنوان سے جو تین جلدیں شائع کی ہیں، اس کی دوسری جلد میں مولانا کا بھی دکر کیا گیا ہے، مگر یہ مصمون بڑا تشنہ اور ناقص ہے۔ مولانا کی اردو خدمات کے تعلق سے ایک جملہ بھی نہیں لکھا گیا۔حیرت کا مقام ہے کہ مولانا کی زندگی پر اب تک کوئی باصابطہ تصنیف نہیں ملتی، بس جمعیۃ کا وہ خصوصی نمبر ملتا ہے جس میں معاصرین کے تأثراتی قسم کے مضامین جمع کر دیے گئے ہیں۔ یا مولانا سلمان شاہ جہاں پوری کی کتاب مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی: ایک سیاسی مطالعہ ملتا ہے، جو مختلف مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا ہے، ضرورت ہے کہ کوئی اردو داں یا مدرسے کا کوئی فاضل ہی اس خالی میدان میں آئے اور کوئی سوانحی کتاب لکھ کر اس خلا کو پر کردے۔ تاکہ ۵۰؍ سال بعد ہی سہی علمی اور ادبی دنیا میں مولانا کے نام اور کام سے شناسائی کا سلسلہ شروع ہوسکے۔ اسلاف فراموشی کے مرض پر قابو پانا صروری ہے، ورنہ نسل نو ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔٭٭٭(بصیرت فیچرسروس)
*ABRAR AHMAD
ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL
JNU NEW DELHI 110067
MOB:9910509702
email:abrarahmadijravi@gmail.co


Sunday, 20 April 2014

research paper

نقش حیات: ادبی نگار خا نے میں

اے اہل ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو
Abrar Ijraviدوسروں کی سوانح لکھنایا دوسروں کے احوال و کوائف قلم بند کرنا بہت آسان کام ہے۔اس کے برعکس اپنی خود نوشت مرتب کرنا اور اپنی کتاب زندگی کو بے کم و کاست تحریر کے قالب میں ڈھالناپل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ سوانح نگاری خارجی زندگی کی تصویر کشی ہے، تو خود نوشت نگاری باطن کے اسرار رو رموز کو کاغذ کے سینے پر کندہ کرنے کی جاں کاہی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خود ستائی کی بے لگام خواہش سے مجبور ہوکر اپنی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنے عیوب پریا تو ملمع سازی کرتا ہے یا دانستہ اس سے چشم پوشی کرلیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ داستان خود بقلم خود سے عبارت، خود نوشت نگاری تمام ادبی اصناف میں مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ مشکل اس لیے کہ اس میں حقیقت بیانی اور صدق مقالی سے کام لینے پر اپنی زندگی کی پرتوں کو اس طرح کھولنا پڑتا ہے کہ بسا اوقات دھرم سنکٹ والا معاملہ پیش آجاتا ہے۔اور یہیں نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر مصنف کا قلم شکست کھاجاتا ہے۔ اور آسان اس لیے کہ اگرچہ اپنا اعمال نامہ زیادہ’ طویل‘ ہو ، اس پر ادبی لفاظی، عبارت آرائی اور خوش نما ترکیبوں کی قلعی کرتے جائیے اور اپنی خامیوں کو بھی خوبی کے لباس میں پیش کرتے جائیے۔ خود نوشت نگاری کوئی تحقیق یا تنقید کا میدان نہیں کہ اس میں مراجع اور مآخذ کی طرف جھانکنے کی نوبت آئے ۔ بس حقیقت کی بینائی کھولے رکھیے اور اپنے ظاہر و باطن کے احوال کو قلم و قرطاس کے حوالے کرتے جائیے۔تا ہم خود نوشت کے لیے اصلیت و واقعیت اور انکشاف ذات خشت بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خود نوشت کا محور چوں کہ مصنف کی شخصیت ہوتی ہے، اس لیے اس میں اپنی ذات سے محبت کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے اور قاری کے محاسبے کا خوف بھی دامن گیر رہتا ہے۔سوانح عمری اور خود نوشت کے تقاضوں کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں:’’ایک لحاظ سے آپ بیتی یا خود نوشت سوانح عمری کی صنف دوسروں کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں کے مقابلے میں خاصی نارسا اور ناقص چیز ہوتی ہے۔ اس کے راستے میں دوبڑی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ دوسرں کا خوف اور اپنے آپ سے محبت۔ ایک اچھا سوانح نگار، اپنے فن کی لاج رکھنے کے لیے بہت سی ایسی باتیں بھی بیان کردیتا ہے جو خود نوشت نویس کے لیے ممکن نہیں ہوتیں۔ سوانح نگار اپنے ہیرو کے کرداد کا جج بن سکتا ہے۔ اس کی کمزوریوں کا شمار کرسکتا ہے لیکن آپ بیتی میں اپنی محبت اور دوسروں کاخوف ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ وہ نہ اپنے گناہوں کی صحیح فہرست پیش کرسکتا ہے، نہ اپنا صحیح جج بن سکتا ہے۔( میر امن سے عبد الحق تک،ڈاکٹر سید عبد اللہ، ص:۴۰۰چمن بک ڈپو، دہلی، ۱۹۶۵ء)خود نوشت نگاری کے بنیادی لوازم کیا ہیں، ڈاکٹر عمر رضا لکھتے ہیں:’’خود نوشت سوانح عمری کی تعمیر اگرچہ خود مصنف اپنی یاد داشت کی بنیاد پر کرتا ہے، لیکن محض یاد داشت کی بنیاد پر خود نوشت سوانح مرتب کرنا درست نہیں، بلکہ مصنف کو اپنے حالات و واقعات کی صحت مندی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اپنے متعلق کوئی بھی غلط بات یا غلط حقائق قارئین کی نذر نہ کردے۔‘‘(اردو میں سوانحی داب: فن اور روایت، ص:۲۲، کتابی دنیا نئی دہلی، ۲۰۱۱ء)ڈاکٹر سید طفیل احمد خود نوشت سوانح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’آپ بیتی کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، محسوسات و نظریات کی مربوط داستان ہوتی ہے، جو اس نے سچائی کے ساتھ بے کم و کاست قلم بند کردی ہو، جس کو پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں۔ اس کے نہاں خانوں کے پردے اٹھ جائیں اور ہم اس کی خارجی زندگی کی روشنی میں پرکھ سکیں۔‘‘(اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت، ص:۱۲۱)خود نوشت سوانح کے مدکورہ لوازمات اور فنی تعریف کے علاوہ اگر ماہرین فن کے ذریعے مرتب کردہ اس کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے تو یہ صنف تمام نثری اصناف میں مشکل ترین نظر آتی ہے اور اس دشت کی سیاحی کے لیے قدم قدم پر بڑی جان کاہی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ مشہور مزاح نگار مشتاق یوسفی اسی مشکل کو بیان کرتے ہوئے، اپنی مزاحیہ خود نوشت زرگزشت کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’آپ بیتی میں ایک مصیبت یہ ہے کہ اپنی بڑائی آپ کرے تو خود ستائی کہلائے اور از راہ کسر نفسی یا جھوٹ موٹ اپنی برائی خود کرنے بیٹھ جائے تو یہ احتمال کہ لوگ جھٹ یقین کرلیں گے۔‘‘
شورش کاشمیری بھی خود نوشت نگاری کو نقصان کا سودا ہی بتاتے ہیں، اور اس کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’لیکن چوں کہ انسان یہ سمجھ کر اپنے حالات حوالۂ قلم کرتا ہے کہ ایک دن یہ مجموعہ لوگوں کے ہاتھ میں جائے گا، اس لیے اس تصویر میں جہاں عیب ہیں وہ ان پر سیاہی پھیرتا جاتا ہے اور اس بناء پر یہ مرقع بھی اس کی سچی شبیہ نہیں ہوتی۔‘‘(قلم کے چراغ، مرتب:پروفیسر محمد اقبال، ص:۴۶۲، دارالکتاب لاہور، ۲۰۰۹ء)
لیکن مشتاق یوسفی کے احتمال وایقان یا شورش کاشمیری کے غیر معتبریت کا مسئلہ ان لوگوں کے ساتھ گمبھیر روپ اختیار کرلیتا ہے جو واقعی اپنی زندگی میں بڑے حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ورنہ جن لوگوں کی کتاب زندگی میں حقیقت وصداقت اور اعتبار و استناد کا کوئی باب اور فصل ہی نہ ہو ان کے لیے یہ یقین یا شک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کے لیے صحیح اور غلط سچ اور جھوٹ دونوں یکساں ہیں۔ اکثرخود نوشت نگار اپنی زندگی کے دروں میں جھانکتے ہوئے سچائی اور صداقت پر مبنی ان تمام اصول کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور بس بزبان حال ان کا یہی دعوی ہوتا ہے کہ میں بھی غالب کی طرح عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں۔
خود نوشت نگاری کے مرض میں ہمارے عہد کے قلم کار اس بری طرح مبتلا ہیں، یا شہرت طلبی کے بے لگام شوق اور سیم و زر کی بہتات نے انھیں اس مرض میں مبتلا کردیا ہے کہ کسی لائبریری کے کیٹلاگ میں جاکر خود نوشت والا حصہ کھنگالیے تو سب سے پھیلا ہوا اور وسیع و عریض یہی رقبۂ ادب ہوگا۔ہماری نومولود اردو زبان میں خاص طور سے خود نوشت نگاری کا سیلاب آیا ہوا ہے۔افسانہ نگاری اور عزل گوئی کے بعد اس بیچاری زبان کے اسی نثری حصے کوسب سے زیادہ مشق ستم بنایا جارہا ہے۔ اب تو اردو کے نام سے قائم اکیڈمیاں خود نوشت نگاری کے لیے ادیبوں اور ریٹائرڈ پروفیسرز کو خطیر رقم پر مبنی فیلوشپ بھی دینی لگی ہیں تا کہ اس سیلاب بلا خیز پر کوئی بھی بند نہ باندھ سکے۔اسی قسم کی بے سر و پا باتوں پر مبنی، اردو کی خود نوشت سوانح عمریوں کا ماتم کرتے ہوئے شورش کاشمیری نے لکھا تھا:
’’بین الاقوامی ادب سے قطع نظر اردو میں جس قدر خود نوشت سوانح عمریاں ہیں، ان میں شاعری زیادہ اور اصلیت کم ہے۔‘‘(قلم کے چراغ، ص:۴۶۲)
جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ناچیز راقم الحروف کو خود نوشت نگاری کیا ، کسی بھی نثری یا شعری صنف سے کوئی بیر نہیں ہے، میرا یقین ہے کہ تاریخی کتابوں کی طرح یہ بھی معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ لیکن جب خود نوشت کی تعیین قدر کے معاملے میں بھی ہمارے اردو کے سماجیاتی ماہرین ڈنڈی مارنے لگیں، تو واقعی بڑا دکھ ہوتا ہے۔ خود نوشت نگاری کی صنف میں بے شمار لوگوں کا نام آتا ہے۔ سر رضا علی،جوش ملیح آبادی،رشید احمد صدیقی، عصمت چغتائی، ، آل احمد سرور، کلیم ا لدین احمد، انیس قدوائی ، ادا جعفری، شکیل الرحمن، وہاب اشرفی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس طویل فہرست میں کسی ایسے آدمی کا نام نہیں جو یونیورسٹی یا ادبی پارٹی اورسکہ بند نظریاتی ادبی گروہ سے الگ رہ کراردو زبان کی زلف پریشاں کی مشاطگی میں مصروف ہو۔آخر کیا وجہ ہے کہ اس فہرست میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور شیح الاسلام مولانا حسین احمدمدنی کا نام نہیں آتا۔ بعض شدت پسند حضرات تو مولانا عبدا الماجد دریابادی کی خود نوشت کو بھی ہضم کرجاتے ہیں۔ تجدد پسند ادبا اس فہرست میں زیادہ سے زیادہ مولانا جعفر تھانیسری کا نام لیتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ دستیاب تاریخی دستاویزات کے مطابق ان کی خود نوشت تواریخ عجیب(کالاپانی) کو ارود میں پہلی خود نوشت ہونے کا شرف حاصل ہے۔مصیبت یہ ہے کہ اگر کالاپانی کو پہلی خود نوشت تسلیم نہیں کیا جائے گا تواردو میں خود نوشت نگاری کی تاریخ کو اپنے آغاز کے لیے کئی سال مزید انتظار کرنا پڑے گا۔کیا یہ پلے درجے کی علمی اور ادبی بد دیانتی نہیں؟جب کہ مدارس کی چہار دیوار میں پرورش پانے والے ان بوریہ نشیں علماء کی خود نوشتوں کو پڑھیے تو وہ معلومات کا جام جہاں نما معلوم ہوتی ہیں۔ ان کی زبان میں سادگی بھی ہے اور سلاست بھی۔اختصار بھی ہے اور جامعیت بھی۔ واقعات اور قصوں میں صداقت بھی ہے اور بیانیہ کی چاشنی بھی۔ان کے مشمولات جگ بیتی بھی ہیں اور آپ بیتی بھی۔ ہاں آج کل کی سطحی رومانیت اور عشق و عاشقی کے جھوٹے اور فرضی لطیفوں سے ان کی تحریریں خالی ہوتی ہیں، معاشقہ بازی کے معاملات اور رو مانٹک قصوں سے وہ کیوں سرو کار رکھیں کہ یہ عشق مجازی کا بھی ادنی ترین درجہ ہے، لیکن ان کی تحریروں میں عشق حقیقی کے نمونے وافر مقدار میں ملتے ہیں۔اور یہی درجہ کسی بھی سچے عاشق کا منزل مقصود ہوتا ہے۔اور یہ بھی کہ خود نوشت نگاری اپنی خودی سے آشنائی کا مضبوط دریعہ ہے، جس کی وساطت سے نفس شناسی ہی نہیں، خدا شناسی کی راہ بھی آسان ہوتی ہے۔ عربی کا مقولہ ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ( جو اپنے آپ سے آشنا اور خود آگاہ ہوگیا، اس کو معرفت خداوندی حاصل ہوجائے گی۔)اور اردو شاعری کے مطابق اگر خدا کو اپنا جلوۂ جہاں آرا دیکھنا منظور نہ ہوتا تو شاید یہ دنیا بھی عدم سے وجود میں نہ آتی۔اسی لیے غالب نے کہا ہے:
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے ، اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
شیخ العرب و العجم، اسیر مالٹا اور عظیم مجاہد آزادی مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ’نقش حیات‘کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی متعصبانہ اور جانب دارانہ معاملہ روا رکھاگیا ہے۔ ان کی خود نوشت جو آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں کا حسین سنگم ہے، ہماری ادبی بے حسی کی وجہ سے ادبی تحقیقات کا مرکز بننے سے محروم رہی ہے۔ خود نوشت نگاری کی تاریخ اور تنقید پراردو میں حالیہ برسوں میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں بہت کم ان کی کتاب کا ذکر کیاگیا ہے اور جن ایک آدھ لوگوں نے تحقیق کے مرغے کو حلال کرنے کے لیے اپنی کتاب کے کسی کونے میں اس کادکر کیا ہے تو انھوں نے بھی ادبی معیار بندی کا خون کردیا ہے۔ ان کی خود نوشت کا قدسیہ زیدی، صبیحہ انور اور صدف فاطمہ نے دکر کیا، وہاج الدین علوی اورسید عبد اللہ نے نام لیا او ر وہیں سے ممتاز فاخرہ نے بھی اخذ کیا ، لیکن بس اس حد تک کہ نام شماری کے فرض کفایہ کی ادائیگی میں کمی نہ رہ جائے۔ڈاکٹر صدف فاطمہ کو چھوڑ کرکسی محقق یا ریسرچ اسکالرنے اس کی ، مذہبی یا تاریخی قدر و قیمت پر تفصیل سے(۵؍صفحات میں) بحث نہیں کی۔ پوری اردو دنیا کو مصنفہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی کتاب’’اردو میں خود نوشت سوانح نگاری (۱۹۴۷ء کے بعد)‘‘ میں اس کتاب کے مضامین اور اس کی مذہبی اور تاریخی اہمیت کو بھی مرکز نظر بنایا ہے۔ڈاکٹر عبد اللہ نے جو اس سلسلے میں سرخیل کی حیثیت رکھتے ہیں بس اتنا لکھا کہ:
’’مولانا حسین احمد مدنی نے کوئی بڑا دعوی نہیں کیا۔ محاسبۂ نفس کے فرض سے پوری طرح باخبر رہنے کے باوجود اپنی سوانح عمری تدین،اخلاق آموزی اور واقعات سیاسی کی خارجی تفصیل کے مقصد سے مرتب کی ہے۔‘‘(میر امن سے عبد الحق تک، ص:۴۱۲)
اور وہاج الدین علوی صاحب نے اپنی کتاب کا ماحصل لکھتے ہوئے بس یہ دو جملے لکھے کہ:
’’نقش حیات مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ہے۔ اس خود نوشت میں مولانا نے سیاسی حالات اور علمائے دیوبند کے کارناموں کا دکر کیا ہے۔‘‘اردوخود نوشت، فن اور تجزیہ، ص:۴۱۹، شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، ۱۹۸۹ء)
مجھے گلے شکوے نہیں کرنا ہے۔ یہ تو معزَّز کو معزِز اور مؤثِر کو مؤثَّر بولنے والے اہل ادب اور اردواکادمیوں کے ذمے داران کا محبوب مشغلہ ہے۔ مجھے تو نقش حیات کوخود نوشت نگاری کے لیے مقررہ پیمانے پر ادبی زاویۂ نظر سے دیکھنا ہے اور اس کو تقابل و تجزیے کی اس میزان پر تولنا ہے، جس پر عموما خود نوشت سوانح عمریوں کو ہمارے نقاد تولا کرتے ہیں۔آخر وہ کون سا پیمانہ ہے جس کے دریعے ادب اور غیر ادب کے مابین خط کھینچاجاتا ہے۔کیا صرف زبان و ادب اور ادبی تحریکات کی بحث پر مبنی خود نوشت ہی ادب کے زمرے میں آتی ہے؟ کیا صرف مشاعروں، ادبی مداکروں اور جام و ساغر کی محفلوں کے دکر سے پر خود نوشتوں کے سر پر ہی ادب کا تاج زرنگار کھا جاسکتا ہے؟بادۂ و ساغر کے بغیر بھی تو مشاہدۂ حق کی گفتگو ہوسکتی ہے۔کیا یہ پیمانہ عدل و انصاف سے میل کھاتا ہے، یا پھر یہ اپنی ذہنی عیاشی ہے کہ کس کو ادب کے نگار خانے میں سجانا ہے اور کس کوادب کے دائرے سے دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینک دینا ہے۔ کسی معیار بندی کا یہ پیمانہ تو صحیح ہو نہیں سکتا۔ ادب تو قاری اور ادیب کے مابین کا مقدس رشتہ ہے۔ کوئی تحریر قاری کے باطن کو اپیل کرتی ہے اور اس کو کتھارسس کے مراحل سے گزارنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کو ادب کے نگار خانے میں جگہ دی جاسکتی ہے۔ اردو زبان کے اسرارو رموز سے ناواقفیت کا الزام تو اردو کے سب سے بڑے شاعر علامہ اقبال اور ترقی پسندوں کے میر فیض احمد فیض پر بھی لگایا گیا ہے، لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ علامہ اقبال اور فیض کاکیا مقام ہے اور لاکھوں کی تعداد میں موجود دوسرے شاعراور ادیب ان کے سامنے کہاں کھڑے نظر آتے ہیں۔ مدح و ذم یاتحسین و تنقیص سے اشخاص یا فنون کی معیار بندی ممکن نہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد کے ا ستاد ذوق کو بڑھا چڑھا کر پیش کردینے اورپہلے ایڈیشن میں مومن کو نظر انداز کردینے اور مرزا عالب کا یوں ہی سر سری ذکر کردینے کی وجہ سے ذوق ،غالب اور مومن سے بڑے نہیں ہوگئے۔ وقت سب سے بڑا منصف ہے۔مولانا محمد حسین آزاد کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے بعد کوئی عبد الرحمن بجنوری، کوئی مالک رام، کوئی احتشام حسین، کوئی شمس الرحمن فاروقی بھی پیدا ہوگا جو تعیین قدر کا ایسا پیمانہ متعین کرے گا جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ کہاں غالب ومومن اور کہاں ذوق۔ صرف شہ کا مصاحب بن کر ادبی محفلوں کی صدارت کرنے سے کوئی بڑا نہیں ہوجاتا۔
مولانا حسین احمد مدنی نے نقش حیات کسی ادبی قلابازی یاکسی ایوارڈ کے حصول یا محض اپنے باطن کی اپیل پر نہیں لکھی تھی، جس میں خود ستائی یا نمود و نمائش کا عنصر موجود ہوبلکہ دوستوں اور بے تکلف احباب کے اصرار نے انھیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔جب آپ نینی جیل میں قید وبند کی زندگی گزار رہے تھے تو بعض مخلص خدام نے تیری زبان، تیری کہانی ،تیرا قلم کے استدلال کے ساتھ، یہ درخواست رکھی کہ نہ صرف اپنی داتی اور خاندانی زندگی کے نشیب و فراز کی مفصل روداد مرتب کردی جائے، بلکہ جنگ آزادی کی مختلف تحریکوں کے دوران اپنے عینی مشاہدات اور تاریخی واقعات کو بھی قلم بند کردیا جائے۔ تا کہ علم و معرفت کا یہ کشکول آنے والے مؤرخین کے لیے مشعل کا کام دے سکے۔ اور بہت سے ان واقعات سے پردہ اٹھ سکے جو کسی وجہ سے اب تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں اور جن کی روشنی میں ہندستان کے باشندگان اور خاص طور سے مسلمان اپنے مستقبل کی تعمیر کا نقشہ مرتب کرسکتے ہیں۔یہ کتاب کوئی یک شبینہ نہیں، بلکہ نو سالہ کدو کاوش اور ذہنی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۴۴ء میں اس کا آغاز ہوا اور اس کا اختتام ۱۹۵۳ء میں ہوا۔شاہ پار ے اتنی طویل ریاضت کے بعد ہی وجود میں آتے ہیں۔ حروف کی نقش گری اتنا آسان کام نہیں اور پھر یہ بھی کہ انھوں نے دوسری مصروفیات سے بھی ہاتھ نہیں کھینچا تھا، بلکہ انھیں قال اللہ اور قال الرسول کی محفل علم و معرفت سجانے اور تصوف و سلوک کی راہ پر چلنے والے ارادت مندوں کی دست گیری کے ساتھ سیاست کی زلف پریشاں کو بھی سنوارنا تھا کہ
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ۴۴۸ صفحات تک ہھیلا ہوا ہے۔ شروع کے ۱۸۰ ؍صفحوں میں خاندانی اور شخصی کوائف درج ہیں۔ اس کے بعد اپنے استاد گرامی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا مختصر تذکرہ کر کے اس وقت کی مروجہ ہندستانی سیاست کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں انگریزوں کی ظلم پیشہ طبیعت کا بیان بھی ہے اور ہندستانیوں خصوصا مسلمانوں کی مظلومیت کی دل خراش داستان بھی۔ دوسرا حصہ ۳۵۲؍ صفحات کو محیط ہے۔ جس میں اسلامی ریاستوں پر یورپی ممالک کی یورش اور استخلاص وطن کے لیے شاہ عبد العزیز، سید احمد شہید اور حضرت شیخ الہند کی انقلابی تحریکوں کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔
نقش حیات مولانا مدنی کی تعلیمی، تدریسی اور سیاسی زندگی کا بیان ہی نہیں، بلکہ ملکی اور بیرونی حالات و کوائف کا بھی حسین مرقع ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کتاب پر تعارفی کلمات میں لکھتے ہیں:
’’یہ کتاب صرف حضرت مد ظلہ العالی کی سوانح حیات ہی نہیں رہی، بلکہ ہندستان میں انگریزوں کی آمد سے لے کر ان کے اقتدار کے خاتمے تک تمام نمایاں واقعات کا مجموعہ، برطانوی حکومت کی تباہ کن ڈپلومیسیوں اور سیاسی مکر و فریب کا انسائیکلوپیڈیا، حضرت شیخ الہند کی تحریک حریت اور اس عرصے کے سیاسی رجحانات اور انقلابی تحریکات کا وہ مستند اور جامع تذکرہ ہے ، جس کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے، جو ماضی سے سبق لے کر مستقبل کی فکر کرنا چاہتا ہے۔ اور ہند یونین میں ملت اسلامیہ کی عزت و عظمت کا آرزومند ہے۔‘‘(نقش حیات، ص:۱۴)
نقش حیات کے مضامین اور اس کی زبان و بیان اور طرز ادا کیسی ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق، اس پر آج تک کسی ادیب یا اردو کے ریسرچ اسکالر نے تفصیلی بحث نہیں کی۔میں مانتاہوں کہ مولانا مدنی کوئی صاحب طرز ادیب یا انشاء پرداز نہیں تھے۔ وہ شاعر تھے، نہ ’نثر نگار‘وہ تو ایک صوفی منش آدمی تھے، جن کے اعصاب پر بس ایک ہی فکر سوار رہتی تھی اور وہ تھی ملک و قوم کی انگریزوں کے چنگل سے آزادی۔ ایسی صورت میں لفظوں کی مینا کاری کے ذریعے، کوئی اپنی زبان دانی کا کیسے ثبوت دے سکتا تھا۔مصلح قوم سر سید بھی بس قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے، نہ کوئی اہتمام اور نہ التزام، نہ تکلف اور نہ تصنع، ان کے ہاں آمد ہی آمد تھی، آورد کا کوئی دخل نہ تھا ، قوم مسلم کو جگانے کے لیے وہ ادبی ملمع سازی سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ ان کا زور بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر تھا۔ مولانا مدنی نے بھی انھی نکات پر اپنی خود نوشت یا دوسری تحریریں سپرد قلم کی ہیں۔مولانا مدنی کی حالت تو حالی کے الفاظ میں اس شخص کی سی تھی جس کے گھر میں آگ لگی ہو اور وہ پاس پڑوس کے لوگوں کو مدد کے لیے پکارے، ایسی صورت میں اس کے پاس عبارت آرائی اور لفاظی کے لیے گنجائش کہاں نکلے گی۔ وہ تو بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر زور دے گا۔
لیکن حقیقت کی نظروں سے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ مولانا نے اس عجلت اور مدعا نگاری میں بھی زبان و بیان کی حد بندیوں کا خیال رکھا ہے۔ ان کی تحریر کو پرھتے ہوئے خشکی اور حد سے زیادہ سنجیدگی کا احساس تو ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹھوس علمی اور تحقیقی زبان لکھی ہے اور انھوں نے آپ بیتی سے زیادہ جگ بیتی کا خیال رکھا ہے اور پاپ بیتی کی طرف تو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔کیوں کہ ایجاد معانی تو خداداد ہوتی ہے۔ اس کے لیے جوش ملیح آبادی کی طرح فرصی عشقیہ داستانوں کا پیوند لگانے کی ضرورت نہیں۔ مولانا حقیقت و صداقت کا تھامے رہنے کے باوجود زبان و بیان کی حد بندیوں کا پورا خیال رکھتے تھے۔
مجھے ذیل کی سطروں میں نقش حیات کے مضامین اور اس کی تاریخی یا سیاسی حیثیت سے بحث نہیں کرنی ہے کہ اگرادبی معیاربندی کا یہ اصول قرار پاجائے تو پھر ہمیں بہت سے ادبی مسلمات اور تاریخی حقیقتوں پر خط تنسیخ کھنچنا پڑے گا۔ واقعات اور مواد اور تاریخ نگاری کے حوالے سے کسی دوسری خود نوشت تحریر سے نقش حیات کا کوئی علاقہ نہیں۔ شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔مجھے صرف زبان و بیان اور خود نوشت کے نام نہاد اصول کی عینک سے اس کو دیکھنا ہے اور شکستہ آڑی ترچھی لکیروں کے ذریعے نقش حیات کی وہ تصویر ابھارنی ہے جو ہمارے ذہنی اور ادبی جمود پر ہلکی سی ضرب لگا سکے۔
جو کچھ لکھا جائے بے تکلف اور قلم برداشتہ لکھا جائے۔ یہی طرز تحریر نثر میں محبوب اور مروج ہے۔ نہ جانے کیوں مولانا حالی نے شاعری میں ستر کنویں جھانک کر الفاظ کے تفحص کی ستائش کی ہے۔ خیر شاعری میں تو یہ قدم محبوب اور قابل تقلید ہو سکتا ہے، لیکن نثر خاص طور سے خود نوشت میں تو یہ طرز تحریر کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوسکتا۔مولانا مدنی کے موئے قلم سے ایسے بے تکلف اور پر معنی جملے ادا ہوئے ہیں جن پر مقفی اور مسجع تحریروں کا انبوہ قربان کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے طویل جملے نہیں لکھے ہیں کہ اس قسم کے جملوں سے جو دارز نفسی پیدا ہوتی ہے، قاری اس کی مشقت کا بار اٹھانے کے قابل نہیں رہتا اور وہ اکتاہٹ کی گرفت میں کتاب کو ایک طرف ڈالنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ نقش حیات میں اکثر یک سطری جملے استعمال کیے گئے ہیں۔ اور بہت سے تفریعی جملوں کا اختتام ایک ہی حرف پر ہونے کی وجہ سے موسیقیت کی چاشنی بھی پیدا ہوتی ہے۔جملے اتنے چھوٹے اور پر زور ہیں کہ ان میں ڈرامائی مکالموں کی شان پیدا ہوگئی ہے۔مولانانے حسب و نسب سے جنم لینے والے امتیازات کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’اور روح نکلنے کے بعد تو جسم انسانی خواہ شریف کا ہو یا رذیل کا، بادشاہ کا ہو یا فقیر کا، قوی کا ہو یا ضعیف کاجس حالت پر پہنچ جاتا ہے سب کو معلوم ہے۔ جماد محض ہوکر پھولتا پھٹتا ہے، سڑتا گلتا ہے، کیڑے پڑتے ہیں، بدبو سخت پیدا ہوتی ہے، پیپ اور لہو بہتا ہے اور زمین میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ یہاں نہ شرافت نسبی کچھ فرق کرتی ہے ، نہ دولت و ثروت، نہ حکومت و قوت‘‘(ص:۳۲۔۳۳)
مولانا حسین احمد مدنی کو شاعری سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی فارسی اور عربی کے بہت سے اشعار انھیں ازبر تھے، جن سے وہ اپنی تحریروں میں موقع بموقع استدلال کرتے ہیں۔ ان اشعار کی تعداد غبار خاطر کی طرح اتنی تو نہیں ہے کہ اس کے لیے محققین الگ سے اشاریہ ترتیب دیں لیکن فارسی کے جتنے اشعار کے بھی ان کے قلم سے نکلے ہیں وہ بے وقت کی راگنی معلوم نہیں ہوتے، ان اشعار کا مفہوم مضمون اور مخاطب کے حسب حال ہے۔ ایک جگہ اپنے اوپر اور اپنے خاندان پر خدائی انعامات و اکرامات پر شکریہ سے قاصر رہنے پر استدلال کرتے ہوئے فارسی کے یہ اشعارلکھتے ہیں:
اگر بروید از ہر مو زبانم
ادادئے شکر لطفش کے توانم
من آں خاکم کہ ابر نوبہاری
کند از لطف بر من قطرہ بازی
برطانوی سامراج نے جس طرح مکر و فریب سے کام لے کراپنے ارد گرد بد اطواروں، بد قماشوں اور جرائم پیشہ افراد کا گروہ اکٹھا کرلیا تھا اس پر طنز کرتے ہوئے یہ شعر رقم کرتے ہیں:
کند جنس باہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر باز باباز
مولانا اردو کے قدیم دواوین پر بھی نظر رکھتے تھے اساتذہ کے سینکڑوں اشعار ان کے حافظے میں موجود تھے۔ فارسی کی طرح ہی کہیں کہیں اردو کے اشعار سے بھی انھوں اپنی بات کو مزین کیا ہے۔ اپنے والد کے حب نبوی اور مدینہ منورہ سے عشق و محبت کو ان اشعار کی آنچ دی ہے کہ:
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
علمائے اہل سنت اور علمائے دیوبند کے سر پر جس طرح حسام الحرمین میں بے سروپا الزامات کا ٹھیکر ا پھوڑنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کا دنداں شکن جواب دیتے ہوئے یہ شعر لکھا کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
جب اپنے استاد اور روحانی پیشوا حضرت شیخ الہند کی تجہیز و تکفین میں شرکت سے محروم رہ گئے تو اپنی حسرت کا اظہار اس شعر سے کیا کہ
قسمت کی بد نصیبی کو صیاد کیا کرے
سر پر گرے پہاڑ تو فرہاد کیا کرے
تشبیہات و استعارات کے مرقعے بھی تحریروں کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ کسی روکھی پھیکی تحریر میں بھی تشبیہ اور استعارے کی پیوند کاری سے ان کے تن مردہ میں جان آجاتی ہے۔ لیکن وہی تشبیہ اور استعارہ چمن تحریر کی حنا بندی کرسکتا ہے جس میں بر جستگی اور شفگتگی ہو۔ بہ تکلف ڈھونڈ ی جانے والی تشبیہیں کہاں کی اینٹ، کہاں کا روڑا ثابت ہوتی ہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی نے بھی اپنی تحریر کی جڑوں میں تشبیہ کا آب حیات دیا ہے۔ اور یقین کرنا پڑتا ہے کہ تمام تر علمی اور سیاسی مصروفیت کے باوجود وہ اس ہنر سے عاری یا غافل نہیں تھے۔ جب مولانا اور ان کے گھر کے دوسرے افراد نے مل کر ان کے والد محترم کو مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنالینے کی ترغیب دی، تو اس مطالبے کو اس طرح تشبیہ دی ہے:
’’یہ کلمات ایسے مؤثر واقع ہوئے جیسے کہ اسپرٹ میں دیا سلائی ہوتی ہے۔‘‘(ص:۴۷)
اسی طرح جب مولانا کی اہلیہ کے ماموں نے مولانا کے والد محترم سے اپنی یہ خواہش ظاہرکی کہ میں اس کو لکھنؤ میں رکھ کر طب پڑھاؤں گاتو والد کے انکار اور دینی اور عصری تعلیم کے مابین فرق کو کتنی خوب صورت تشبیہ دی ہے:
’’والد صاحب نے جواب دیا کہ کیا حسین احمد مدنی کو گھوڑے پر سوار کرنے کے بعد میں گدھے پر سوار کروں گا۔ (ص:۴۸)
اسی طرح ہندستان کی دولت و ثروت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’۱۷۷۲ء میں صرافوں کی دکانوں پر شہروں میں اشرفیوں اور روپیوں کے ڈھیر ایسے لگے ہوئے تھے جیسے منڈیوں میں اناج کے ڈھیر ہوتے ہیں۔‘‘(ص:۲۳۰)
مولانا نے کسی بھی چیز کا ذکر کرتے وقت اس کی تمام جزئیات اور مالہ و ماعلیہ کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ مدینہ منورہ میں پانی لانے کے لیے سقے متعین ہوتے تھے، جو نہر زرقاء سے پانی لانے کا کام کرتے تھے۔ نہر زرقاء کا دکر کرتے ہوئے مولانا نے اس کے جائے وقوع، اس کے اجمالی پس منظرکے عنوان سے دو صفحے کا طویل مصمون لکھا ہے، جس میں اس کے ابتدائی عہد سے لے کر اس کی موجودہ حیثیت تک کا تفصیل سے ذکر کیا گیاہے۔ اس حصے کو پڑھتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کے چڑیا چڑے اور چائے والے خطوط کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس میں انھوں نے اپنی انشاء پردازی کا ثبوت دیا ہے۔مولانا نے اس نہر کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ ایک جگہ ہندستان کی خوبیوں اور اس کی مابہ الامتیاز حصوصیات کا شمار کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے:
’’اس زمانے میں عام طور سے ہندستانیوں میں مہمان نوازی، انسانی ہمدردی، غرباء اور مصیبت زدوں پر شفقت اور رحم، عہد و پیمان کا تحفظ اور پابندی، خدا ترسی اور سچائی، امانت داری اور سخاوت، وفا داری اور صداقت، دیانت داری اور عدالت، بلند حوصلگی اور شرافت، بیدار مغزی اور جفا کشی، چستی اور بیداری، شجاعت اور مردانگی وغیرہ اوصاف جمیلہ بڑے پیمانے پر پائے جاتے تھے۔‘‘(ص:۱۹۴)
الفاظ کی تکرار سے غنائیت پیدا ہوتی ہے۔ قدیم شعراء کے دواوین لفظوں کی تکرار والی صنعت سے لبریز ہیں۔ مولانا بھی اس ہنر سے عاری نہیں ہیں۔ شاہان ہند کی رواداری اور ان کے مساویانہ او ر عدل پرور نظام حکومت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہی نہیں، بلکہ اپنی بے مثل ثروت، بے مثل تجارت، بے مثل دست کاری، بے مثل تمدن اور بے مثل طاقت کی بنیاد پر اقوام عالم میں برتری اور سب سے فوقیت کا درجہ رکھتے تھے۔‘‘(ص:۱۸۵۔۸۶)
اسی طرح ایک ہی وزن کے متضاد الفاظ کے ذریعے بھی غنائیت اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔ تنافس و تنافر، اعمال و اخلاق، ذکر و فکر، خلافت اور اجازت، معماروں اور مزدوروں، اخلاق عالیہ اور اعمال صالحہ، سلام و پیام وغیرہ مرکبات مختلف مواقع پر قاری کی موسیقیت پسندی کے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
صنعت تضاد سے بھی تحریر میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ اس سے جہاں قاری کی ذہنی ورزش ہوتی ہے وہیں وہ دو مختلف تصورات سے بھی آگا ہ ہوتا ہے۔ اس سے اشیاء کے حسن و قبح کا پہلو بھی نکھر کر سامنے آتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے۔ الاشیاء تتبین باضدادہا۔مولانا گرچہ شاعر نہ تھے، مگر اس ادبی خصوصیت سے نا واقف نہ تھے۔لکھتے ہیں:
’’رحمت اور انعام خداوندی کی بے نیازی اور وسعت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ دم کی دم میں ذرہ کو پہاڑ اور قطرے کو سمندر بنادے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔عامی مسلمان کو قطب الاقطاب بنادے۔ جاہل کو عالم اور دیوانہ کو افلاطون کردے تو کچھ مستبعد نہیں۔‘‘(ص:۳۳)
مولانا کی نظراردو کے محاوروں، ضرب الامثال اور روزمرہ پر بھی بڑی گہری تھی۔ دیکھیے نقش حیات میں استعمال ہونے والے چند محاوروں، ضرب الامثال اور روزمروں کی جھلک۔مجھ پر نزلہ زیادہ گرتا تھا، وہ ہمیشہ کاٹ کرتے تھے، میری اولاد پھلے پھولے گی، خاندان کے بڑھنے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، کس کے پلے پڑجائیں، اپنا الو سیدھا کرنا، مگر خدا جانے اس بے شمار دولت اور بے نظیر سرمایہ کو زمین کھاگئی یا آسمان اچک لے گیا،فورٹ ولیم میں سونے کا مینہ برسنے لگا، ایڑی چوٹی تک زور لگادیا، کامیابی کے ڈنکے بھی بجائے، تنگ آمدبجنگ آمد، پانی سر سے اوپر گزر چکا تھا وغیرہ۔
مولانا کی تعلیم عربی اور فارسی میں ہوئی اور مسجد نبوی میں تعلیم و تدریس کے طویل تجربے نے انھیں عربی کا مرد میدا ن بنادیا تھا، اسی لیے ان کی تحریروں پر عربی اور فارسی کا گہرا نقش ملتا ہے، لیکن مولانا بلاغت کے اصول سے نا واقف نہیں تھے۔ وہ خود نوشت اردو میں لکھ رہے تھے اور انھیں اپنے مخاطب کی علمی قابلیت اور ذہنی رسائی کا بھی خوب اندازہ تھا۔ اسی احساس کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے مقامی زبان کے عام فہم ہندی الفاظ کو بھی جملوں میں برتا ہے، جس کی وکالت مولانا سید سلیمان ندوی بھی کیا کرتے تھے۔نقش حیات میں چھپ لک کر، اپر تلی، ٹٹپونجیوں، استری اور کلف، ہنڈی، ٹاٹ، ڈنٹھڑ، ڈھلوان، ڈھارس، گارا ڈھونا، اینٹیں پاتھنا وغیرہ خالص مقامی الفاظ ملتے ہیں۔
آج سے پچاس ساٹھ سال قبل اختصاو و ایجاز کو تحریر کی معراج تصور کیا جاتا تھا۔ مولانا نے اس عام روش کو اس طرح تو نہیں اپنایا کہ اختصار کے گرداب میں اس طرح الجھ جائیں کہ تحریر ایک معمہ بن جائے، بلکہ انھوں نے اپنے مخاطب اور مضمون کا لحاظ کرتے ہوئے اختصار و ایجاز سے کام لیا ہے۔ جملے نہ مختصر ہیں اور نہ طویل۔ان کی تحریروں میں نہ ایجاز مخل ہے اور نہ اکتادینے والی طوالت۔ بلکہ درمیانی راہ اختیار کی ہے۔ محشر اعظمی نے مولانا کی قلمی خصوصیات کو شمار کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’آپ کا قلم بس وہیں تک چلتا ہے جتنا اسے چلنا چاہیے۔ نہ اتنی تفصیلات اور جزئیات ہوتی ہیں کہ پڑھتے پڑھتے قاری اکتا جائے اور نہ اتنا اختصار کہ مطلب ہی خبط ہوجائے۔ جس بات کی تفصیل صروری ہوتی ہے اسے پھیلا کر لکھتے ہیں اور جس بات میں اختصار ہونا چاہیے اسے مختصر ہی لکھتے ہیں‘‘(روزنامہ الجمعےۃ، شیخ الاسلام نمبر، ص:۱۷۳)
نقش حیات میں ا ختصار و جامعیت سے عبارت اس طرز تحریر کا انھوں نے بھرپور لحاظ رکھا ہے۔ چناں چہ اپنے ذاتی احوال تو اختصار کے ساتھ قلم بند کیے ہیں، لیکن دوسرے حصے میں قومی اور بین الاقوامی حالات پر تفصیل اور طویل حوالوں کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔
خلاصہ یہ کہ نقش حیات میں معانی کا دریا بھی رواں ہے اور زبان و بیان کی نہر بھی بہ رہی ہے۔ یہ صرف معلومات کا خزینہ ہی نہیں، ادبی لطافت کا مرقع بھی ہے۔ نثر کے لیے سادگی، سلاست، اختصار وجامعیت، قطعیت، صراحت اور وضاحت کی جتنی شرطیں درکار ہیں، ان پر نقش حیات سو فی صد نہیں تو ننانوے فی صد ضرور اترتی ہے۔ مشکل سے مشکل مضمون کو انھوں نے آسان جملوں میں قلم و قرطاس کے حوالے کردیا ہے۔ جو زبان و بیان پر ان کی مہارت کی دلیل ہے۔ انگریزوں کے دجل و فریب اور ان کی ظالمانہ پالیسیوں کے حوالے سے کوئی بات بے دلیل نہیں ہے۔ انگریزی اور اردو کے سینکڑوں حوالے قاری کو ایقان کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ہر بات قاری کو یقین وعمل اور محبت و معرفت کی لذت سے شرسار کرتی ہے۔ اور دل پر اپنا اثر مرتب کرتی ہے۔ یادوں کی بارات کی طرح خالی خولی بے لطف الفاظ کا مجموعہ نہیں، نہ عشق و عاشقی کے فرضی واقعات سے آلودہ ہے، لیکن پھر بھی خدا معلوم کیوں ہمارے ناقدین اورخود نوشت نگاری پر ریسرچ کرنے والوں نے اس پر مطلوبہ توجہ نہیں دی ہے۔ نا مکمل خود نوشتوں پر بحث کی گئی ہے، مگر ایک مکمل خود نوشت کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔نقش حیات صرف اپنے مصامین و مشمولات کے اعتبار سے ہی نہیں، زبان و بیان کے اعتبار سے بھی تحقیق کا موضوع بن سکتی ہے۔ نقش حیات کوئی ناول اور افسانہ تو نہیں لیکن تاریخی و سیاسی حقائق کا نگار خانہ ضرور ہے۔اس میں نام نہاد فنی جمالیات تو نہیں، لیکن خود نوشت کی دوسری صفات خود اظہاریت اور تاریخی صداقت کا سنگم ضرور ہے۔یہ قلب میں سوز اور روح میں احساس کے ساتھ تحریر کی گئی ہے، ایسا قلب جو لا الہ کی صدائے الوہی سے سرشار تھا۔اور ایسے صاحب دل بزرگ کے قلم کا نتیجہ ہے جو شب زندہ دار ہونے کے ساتھ رسم شاہبازی ادا کرنے کے لیے میدان جنگ میں بھی شہ سواری کا فرض انجام دیتا تھا۔یہ ایسے مرد مجاہد کی داستا ن حیات ہے جس کے رگ و پے میں مستی کردار کا لہو گردش کرتا تھا۔یہ ایسے شخص کی روداد زندگی ہے جو قوم کی حالت اور قوم کی امامت دونوں ہنر سے آشنا تھا۔ ا س کی زندگانی صداقت، عدالت اور شجاعت کے خمیر سے تیار ہوئی تھی۔ اس کے اندر کسی قسم کی تعلی یا نفس پروری نہیں تھی اور حالی نے جوخود نوشت کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ اس میں تعلی اور خود ستائی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور خودد نوشت تمام کاموں سے سبک دوشی حاصل کرنے کے بعد لکھی جائے، ان دونوں شرطوں پر یہ خود نوشت مکمل اترتی ہے۔ اسی لیے ضرورت ہے کہ ہماری ادبی حس بیدار ہو اور ساٹھ سال بعد ہی سہی اس کی ادبی قدر و قیمت کا جائزہ ضرور لیا جائے،کیوں کہ یہ محض کتاب ہی نہیں، علم و معانی کا بحر بے کراں ہے، جس سے ہر دور میں مستقبل کی تعمیر کا نقشہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ دور حاضر کے مشہور تخلیقی ناقد حقانی القاسمی نے اسی شکوہ کا اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’ادبی اور علمی دونوں اعتبار سے اس(نقش حیات) کا شمار اہم خود نوشتوں میں ہوتا ہے۔ گوکہ تنگ نظر ناقدین اس کے دکر سے اعراض کرتے ہیں، مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو خود نوشت کے فنی تقاضوں پر یہ کتاب پوری اترتی ہے۔ جس میں مولانا موصوف نے نہ صرف اس عہد کو زندہ کردیا ہے، بلکہ اس عہد کی پوری سیاسی اور سماجی تاریخ بھی اس کتاب میں سماگئی ہے۔ اس لحاظ سے نقش حیات ایک مقصدی خود نوشت ہے نہ نرگسیت کی شکارخود ستائی یا خود بینی کی مظہر‘‘(دارالعلوم دیوبند، ادبی شناخت نامہ، ص:۷۰)
نقش حیات تو ہمارا مشترکہ علمی، تاریخی اور ادبی سرمایہ اور مشرقی اقدار حیات کا خزانہ ہے۔ یہ اہل علم و ادب کی وہ متاع فراموش کردہ ہے، جس کی تحقیقی بازیافت اور اس کی تعیین قدر کرکے ہم اپنے مستقبل کی تعمیر و ترقی کا نقشہ تیار کرسکتے ہیں۔ ارود کے ریسرچ اسکالرز کو عموما اور سوانحی ادب پر کام کرنے والوں کو عموما اس کی علمی اور ادبی بازیافت کے لیے اس مصرع کے ساتھ آواز دی جاسکتی ہے کہ
اے اہل ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو
(بصیرت فیچرسروس)
***
ابرا ر احمد اجراوی
روم نمبر۲۱؍لوہت ہاسٹل
جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی
موبائل:9910509702

research paper

نقش حیات: ادبی نگار خا نے میں

اے اہل ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو
Abrar Ijraviدوسروں کی سوانح لکھنایا دوسروں کے احوال و کوائف قلم بند کرنا بہت آسان کام ہے۔اس کے برعکس اپنی خود نوشت مرتب کرنا اور اپنی کتاب زندگی کو بے کم و کاست تحریر کے قالب میں ڈھالناپل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ سوانح نگاری خارجی زندگی کی تصویر کشی ہے، تو خود نوشت نگاری باطن کے اسرار رو رموز کو کاغذ کے سینے پر کندہ کرنے کی جاں کاہی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خود ستائی کی بے لگام خواہش سے مجبور ہوکر اپنی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنے عیوب پریا تو ملمع سازی کرتا ہے یا دانستہ اس سے چشم پوشی کرلیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ داستان خود بقلم خود سے عبارت، خود نوشت نگاری تمام ادبی اصناف میں مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ مشکل اس لیے کہ اس میں حقیقت بیانی اور صدق مقالی سے کام لینے پر اپنی زندگی کی پرتوں کو اس طرح کھولنا پڑتا ہے کہ بسا اوقات دھرم سنکٹ والا معاملہ پیش آجاتا ہے۔اور یہیں نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر مصنف کا قلم شکست کھاجاتا ہے۔ اور آسان اس لیے کہ اگرچہ اپنا اعمال نامہ زیادہ’ طویل‘ ہو ، اس پر ادبی لفاظی، عبارت آرائی اور خوش نما ترکیبوں کی قلعی کرتے جائیے اور اپنی خامیوں کو بھی خوبی کے لباس میں پیش کرتے جائیے۔ خود نوشت نگاری کوئی تحقیق یا تنقید کا میدان نہیں کہ اس میں مراجع اور مآخذ کی طرف جھانکنے کی نوبت آئے ۔ بس حقیقت کی بینائی کھولے رکھیے اور اپنے ظاہر و باطن کے احوال کو قلم و قرطاس کے حوالے کرتے جائیے۔تا ہم خود نوشت کے لیے اصلیت و واقعیت اور انکشاف ذات خشت بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خود نوشت کا محور چوں کہ مصنف کی شخصیت ہوتی ہے، اس لیے اس میں اپنی ذات سے محبت کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے اور قاری کے محاسبے کا خوف بھی دامن گیر رہتا ہے۔سوانح عمری اور خود نوشت کے تقاضوں کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں:’’ایک لحاظ سے آپ بیتی یا خود نوشت سوانح عمری کی صنف دوسروں کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں کے مقابلے میں خاصی نارسا اور ناقص چیز ہوتی ہے۔ اس کے راستے میں دوبڑی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ دوسرں کا خوف اور اپنے آپ سے محبت۔ ایک اچھا سوانح نگار، اپنے فن کی لاج رکھنے کے لیے بہت سی ایسی باتیں بھی بیان کردیتا ہے جو خود نوشت نویس کے لیے ممکن نہیں ہوتیں۔ سوانح نگار اپنے ہیرو کے کرداد کا جج بن سکتا ہے۔ اس کی کمزوریوں کا شمار کرسکتا ہے لیکن آپ بیتی میں اپنی محبت اور دوسروں کاخوف ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ وہ نہ اپنے گناہوں کی صحیح فہرست پیش کرسکتا ہے، نہ اپنا صحیح جج بن سکتا ہے۔( میر امن سے عبد الحق تک،ڈاکٹر سید عبد اللہ، ص:۴۰۰چمن بک ڈپو، دہلی، ۱۹۶۵ء)خود نوشت نگاری کے بنیادی لوازم کیا ہیں، ڈاکٹر عمر رضا لکھتے ہیں:’’خود نوشت سوانح عمری کی تعمیر اگرچہ خود مصنف اپنی یاد داشت کی بنیاد پر کرتا ہے، لیکن محض یاد داشت کی بنیاد پر خود نوشت سوانح مرتب کرنا درست نہیں، بلکہ مصنف کو اپنے حالات و واقعات کی صحت مندی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اپنے متعلق کوئی بھی غلط بات یا غلط حقائق قارئین کی نذر نہ کردے۔‘‘(اردو میں سوانحی داب: فن اور روایت، ص:۲۲، کتابی دنیا نئی دہلی، ۲۰۱۱ء)ڈاکٹر سید طفیل احمد خود نوشت سوانح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’آپ بیتی کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، محسوسات و نظریات کی مربوط داستان ہوتی ہے، جو اس نے سچائی کے ساتھ بے کم و کاست قلم بند کردی ہو، جس کو پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں۔ اس کے نہاں خانوں کے پردے اٹھ جائیں اور ہم اس کی خارجی زندگی کی روشنی میں پرکھ سکیں۔‘‘(اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت، ص:۱۲۱)خود نوشت سوانح کے مدکورہ لوازمات اور فنی تعریف کے علاوہ اگر ماہرین فن کے ذریعے مرتب کردہ اس کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے تو یہ صنف تمام نثری اصناف میں مشکل ترین نظر آتی ہے اور اس دشت کی سیاحی کے لیے قدم قدم پر بڑی جان کاہی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ مشہور مزاح نگار مشتاق یوسفی اسی مشکل کو بیان کرتے ہوئے، اپنی مزاحیہ خود نوشت زرگزشت کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’آپ بیتی میں ایک مصیبت یہ ہے کہ اپنی بڑائی آپ کرے تو خود ستائی کہلائے اور از راہ کسر نفسی یا جھوٹ موٹ اپنی برائی خود کرنے بیٹھ جائے تو یہ احتمال کہ لوگ جھٹ یقین کرلیں گے۔‘‘
شورش کاشمیری بھی خود نوشت نگاری کو نقصان کا سودا ہی بتاتے ہیں، اور اس کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’لیکن چوں کہ انسان یہ سمجھ کر اپنے حالات حوالۂ قلم کرتا ہے کہ ایک دن یہ مجموعہ لوگوں کے ہاتھ میں جائے گا، اس لیے اس تصویر میں جہاں عیب ہیں وہ ان پر سیاہی پھیرتا جاتا ہے اور اس بناء پر یہ مرقع بھی اس کی سچی شبیہ نہیں ہوتی۔‘‘(قلم کے چراغ، مرتب:پروفیسر محمد اقبال، ص:۴۶۲، دارالکتاب لاہور، ۲۰۰۹ء)
لیکن مشتاق یوسفی کے احتمال وایقان یا شورش کاشمیری کے غیر معتبریت کا مسئلہ ان لوگوں کے ساتھ گمبھیر روپ اختیار کرلیتا ہے جو واقعی اپنی زندگی میں بڑے حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ورنہ جن لوگوں کی کتاب زندگی میں حقیقت وصداقت اور اعتبار و استناد کا کوئی باب اور فصل ہی نہ ہو ان کے لیے یہ یقین یا شک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کے لیے صحیح اور غلط سچ اور جھوٹ دونوں یکساں ہیں۔ اکثرخود نوشت نگار اپنی زندگی کے دروں میں جھانکتے ہوئے سچائی اور صداقت پر مبنی ان تمام اصول کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور بس بزبان حال ان کا یہی دعوی ہوتا ہے کہ میں بھی غالب کی طرح عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں۔
خود نوشت نگاری کے مرض میں ہمارے عہد کے قلم کار اس بری طرح مبتلا ہیں، یا شہرت طلبی کے بے لگام شوق اور سیم و زر کی بہتات نے انھیں اس مرض میں مبتلا کردیا ہے کہ کسی لائبریری کے کیٹلاگ میں جاکر خود نوشت والا حصہ کھنگالیے تو سب سے پھیلا ہوا اور وسیع و عریض یہی رقبۂ ادب ہوگا۔ہماری نومولود اردو زبان میں خاص طور سے خود نوشت نگاری کا سیلاب آیا ہوا ہے۔افسانہ نگاری اور عزل گوئی کے بعد اس بیچاری زبان کے اسی نثری حصے کوسب سے زیادہ مشق ستم بنایا جارہا ہے۔ اب تو اردو کے نام سے قائم اکیڈمیاں خود نوشت نگاری کے لیے ادیبوں اور ریٹائرڈ پروفیسرز کو خطیر رقم پر مبنی فیلوشپ بھی دینی لگی ہیں تا کہ اس سیلاب بلا خیز پر کوئی بھی بند نہ باندھ سکے۔اسی قسم کی بے سر و پا باتوں پر مبنی، اردو کی خود نوشت سوانح عمریوں کا ماتم کرتے ہوئے شورش کاشمیری نے لکھا تھا:
’’بین الاقوامی ادب سے قطع نظر اردو میں جس قدر خود نوشت سوانح عمریاں ہیں، ان میں شاعری زیادہ اور اصلیت کم ہے۔‘‘(قلم کے چراغ، ص:۴۶۲)
جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ناچیز راقم الحروف کو خود نوشت نگاری کیا ، کسی بھی نثری یا شعری صنف سے کوئی بیر نہیں ہے، میرا یقین ہے کہ تاریخی کتابوں کی طرح یہ بھی معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ لیکن جب خود نوشت کی تعیین قدر کے معاملے میں بھی ہمارے اردو کے سماجیاتی ماہرین ڈنڈی مارنے لگیں، تو واقعی بڑا دکھ ہوتا ہے۔ خود نوشت نگاری کی صنف میں بے شمار لوگوں کا نام آتا ہے۔ سر رضا علی،جوش ملیح آبادی،رشید احمد صدیقی، عصمت چغتائی، ، آل احمد سرور، کلیم ا لدین احمد، انیس قدوائی ، ادا جعفری، شکیل الرحمن، وہاب اشرفی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس طویل فہرست میں کسی ایسے آدمی کا نام نہیں جو یونیورسٹی یا ادبی پارٹی اورسکہ بند نظریاتی ادبی گروہ سے الگ رہ کراردو زبان کی زلف پریشاں کی مشاطگی میں مصروف ہو۔آخر کیا وجہ ہے کہ اس فہرست میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور شیح الاسلام مولانا حسین احمدمدنی کا نام نہیں آتا۔ بعض شدت پسند حضرات تو مولانا عبدا الماجد دریابادی کی خود نوشت کو بھی ہضم کرجاتے ہیں۔ تجدد پسند ادبا اس فہرست میں زیادہ سے زیادہ مولانا جعفر تھانیسری کا نام لیتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ دستیاب تاریخی دستاویزات کے مطابق ان کی خود نوشت تواریخ عجیب(کالاپانی) کو ارود میں پہلی خود نوشت ہونے کا شرف حاصل ہے۔مصیبت یہ ہے کہ اگر کالاپانی کو پہلی خود نوشت تسلیم نہیں کیا جائے گا تواردو میں خود نوشت نگاری کی تاریخ کو اپنے آغاز کے لیے کئی سال مزید انتظار کرنا پڑے گا۔کیا یہ پلے درجے کی علمی اور ادبی بد دیانتی نہیں؟جب کہ مدارس کی چہار دیوار میں پرورش پانے والے ان بوریہ نشیں علماء کی خود نوشتوں کو پڑھیے تو وہ معلومات کا جام جہاں نما معلوم ہوتی ہیں۔ ان کی زبان میں سادگی بھی ہے اور سلاست بھی۔اختصار بھی ہے اور جامعیت بھی۔ واقعات اور قصوں میں صداقت بھی ہے اور بیانیہ کی چاشنی بھی۔ان کے مشمولات جگ بیتی بھی ہیں اور آپ بیتی بھی۔ ہاں آج کل کی سطحی رومانیت اور عشق و عاشقی کے جھوٹے اور فرضی لطیفوں سے ان کی تحریریں خالی ہوتی ہیں، معاشقہ بازی کے معاملات اور رو مانٹک قصوں سے وہ کیوں سرو کار رکھیں کہ یہ عشق مجازی کا بھی ادنی ترین درجہ ہے، لیکن ان کی تحریروں میں عشق حقیقی کے نمونے وافر مقدار میں ملتے ہیں۔اور یہی درجہ کسی بھی سچے عاشق کا منزل مقصود ہوتا ہے۔اور یہ بھی کہ خود نوشت نگاری اپنی خودی سے آشنائی کا مضبوط دریعہ ہے، جس کی وساطت سے نفس شناسی ہی نہیں، خدا شناسی کی راہ بھی آسان ہوتی ہے۔ عربی کا مقولہ ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ( جو اپنے آپ سے آشنا اور خود آگاہ ہوگیا، اس کو معرفت خداوندی حاصل ہوجائے گی۔)اور اردو شاعری کے مطابق اگر خدا کو اپنا جلوۂ جہاں آرا دیکھنا منظور نہ ہوتا تو شاید یہ دنیا بھی عدم سے وجود میں نہ آتی۔اسی لیے غالب نے کہا ہے:
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے ، اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
شیخ العرب و العجم، اسیر مالٹا اور عظیم مجاہد آزادی مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ’نقش حیات‘کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی متعصبانہ اور جانب دارانہ معاملہ روا رکھاگیا ہے۔ ان کی خود نوشت جو آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں کا حسین سنگم ہے، ہماری ادبی بے حسی کی وجہ سے ادبی تحقیقات کا مرکز بننے سے محروم رہی ہے۔ خود نوشت نگاری کی تاریخ اور تنقید پراردو میں حالیہ برسوں میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں بہت کم ان کی کتاب کا ذکر کیاگیا ہے اور جن ایک آدھ لوگوں نے تحقیق کے مرغے کو حلال کرنے کے لیے اپنی کتاب کے کسی کونے میں اس کادکر کیا ہے تو انھوں نے بھی ادبی معیار بندی کا خون کردیا ہے۔ ان کی خود نوشت کا قدسیہ زیدی، صبیحہ انور اور صدف فاطمہ نے دکر کیا، وہاج الدین علوی اورسید عبد اللہ نے نام لیا او ر وہیں سے ممتاز فاخرہ نے بھی اخذ کیا ، لیکن بس اس حد تک کہ نام شماری کے فرض کفایہ کی ادائیگی میں کمی نہ رہ جائے۔ڈاکٹر صدف فاطمہ کو چھوڑ کرکسی محقق یا ریسرچ اسکالرنے اس کی ، مذہبی یا تاریخی قدر و قیمت پر تفصیل سے(۵؍صفحات میں) بحث نہیں کی۔ پوری اردو دنیا کو مصنفہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی کتاب’’اردو میں خود نوشت سوانح نگاری (۱۹۴۷ء کے بعد)‘‘ میں اس کتاب کے مضامین اور اس کی مذہبی اور تاریخی اہمیت کو بھی مرکز نظر بنایا ہے۔ڈاکٹر عبد اللہ نے جو اس سلسلے میں سرخیل کی حیثیت رکھتے ہیں بس اتنا لکھا کہ:
’’مولانا حسین احمد مدنی نے کوئی بڑا دعوی نہیں کیا۔ محاسبۂ نفس کے فرض سے پوری طرح باخبر رہنے کے باوجود اپنی سوانح عمری تدین،اخلاق آموزی اور واقعات سیاسی کی خارجی تفصیل کے مقصد سے مرتب کی ہے۔‘‘(میر امن سے عبد الحق تک، ص:۴۱۲)
اور وہاج الدین علوی صاحب نے اپنی کتاب کا ماحصل لکھتے ہوئے بس یہ دو جملے لکھے کہ:
’’نقش حیات مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ہے۔ اس خود نوشت میں مولانا نے سیاسی حالات اور علمائے دیوبند کے کارناموں کا دکر کیا ہے۔‘‘اردوخود نوشت، فن اور تجزیہ، ص:۴۱۹، شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، ۱۹۸۹ء)
مجھے گلے شکوے نہیں کرنا ہے۔ یہ تو معزَّز کو معزِز اور مؤثِر کو مؤثَّر بولنے والے اہل ادب اور اردواکادمیوں کے ذمے داران کا محبوب مشغلہ ہے۔ مجھے تو نقش حیات کوخود نوشت نگاری کے لیے مقررہ پیمانے پر ادبی زاویۂ نظر سے دیکھنا ہے اور اس کو تقابل و تجزیے کی اس میزان پر تولنا ہے، جس پر عموما خود نوشت سوانح عمریوں کو ہمارے نقاد تولا کرتے ہیں۔آخر وہ کون سا پیمانہ ہے جس کے دریعے ادب اور غیر ادب کے مابین خط کھینچاجاتا ہے۔کیا صرف زبان و ادب اور ادبی تحریکات کی بحث پر مبنی خود نوشت ہی ادب کے زمرے میں آتی ہے؟ کیا صرف مشاعروں، ادبی مداکروں اور جام و ساغر کی محفلوں کے دکر سے پر خود نوشتوں کے سر پر ہی ادب کا تاج زرنگار کھا جاسکتا ہے؟بادۂ و ساغر کے بغیر بھی تو مشاہدۂ حق کی گفتگو ہوسکتی ہے۔کیا یہ پیمانہ عدل و انصاف سے میل کھاتا ہے، یا پھر یہ اپنی ذہنی عیاشی ہے کہ کس کو ادب کے نگار خانے میں سجانا ہے اور کس کوادب کے دائرے سے دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینک دینا ہے۔ کسی معیار بندی کا یہ پیمانہ تو صحیح ہو نہیں سکتا۔ ادب تو قاری اور ادیب کے مابین کا مقدس رشتہ ہے۔ کوئی تحریر قاری کے باطن کو اپیل کرتی ہے اور اس کو کتھارسس کے مراحل سے گزارنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کو ادب کے نگار خانے میں جگہ دی جاسکتی ہے۔ اردو زبان کے اسرارو رموز سے ناواقفیت کا الزام تو اردو کے سب سے بڑے شاعر علامہ اقبال اور ترقی پسندوں کے میر فیض احمد فیض پر بھی لگایا گیا ہے، لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ علامہ اقبال اور فیض کاکیا مقام ہے اور لاکھوں کی تعداد میں موجود دوسرے شاعراور ادیب ان کے سامنے کہاں کھڑے نظر آتے ہیں۔ مدح و ذم یاتحسین و تنقیص سے اشخاص یا فنون کی معیار بندی ممکن نہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد کے ا ستاد ذوق کو بڑھا چڑھا کر پیش کردینے اورپہلے ایڈیشن میں مومن کو نظر انداز کردینے اور مرزا عالب کا یوں ہی سر سری ذکر کردینے کی وجہ سے ذوق ،غالب اور مومن سے بڑے نہیں ہوگئے۔ وقت سب سے بڑا منصف ہے۔مولانا محمد حسین آزاد کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے بعد کوئی عبد الرحمن بجنوری، کوئی مالک رام، کوئی احتشام حسین، کوئی شمس الرحمن فاروقی بھی پیدا ہوگا جو تعیین قدر کا ایسا پیمانہ متعین کرے گا جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ کہاں غالب ومومن اور کہاں ذوق۔ صرف شہ کا مصاحب بن کر ادبی محفلوں کی صدارت کرنے سے کوئی بڑا نہیں ہوجاتا۔
مولانا حسین احمد مدنی نے نقش حیات کسی ادبی قلابازی یاکسی ایوارڈ کے حصول یا محض اپنے باطن کی اپیل پر نہیں لکھی تھی، جس میں خود ستائی یا نمود و نمائش کا عنصر موجود ہوبلکہ دوستوں اور بے تکلف احباب کے اصرار نے انھیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔جب آپ نینی جیل میں قید وبند کی زندگی گزار رہے تھے تو بعض مخلص خدام نے تیری زبان، تیری کہانی ،تیرا قلم کے استدلال کے ساتھ، یہ درخواست رکھی کہ نہ صرف اپنی داتی اور خاندانی زندگی کے نشیب و فراز کی مفصل روداد مرتب کردی جائے، بلکہ جنگ آزادی کی مختلف تحریکوں کے دوران اپنے عینی مشاہدات اور تاریخی واقعات کو بھی قلم بند کردیا جائے۔ تا کہ علم و معرفت کا یہ کشکول آنے والے مؤرخین کے لیے مشعل کا کام دے سکے۔ اور بہت سے ان واقعات سے پردہ اٹھ سکے جو کسی وجہ سے اب تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں اور جن کی روشنی میں ہندستان کے باشندگان اور خاص طور سے مسلمان اپنے مستقبل کی تعمیر کا نقشہ مرتب کرسکتے ہیں۔یہ کتاب کوئی یک شبینہ نہیں، بلکہ نو سالہ کدو کاوش اور ذہنی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۴۴ء میں اس کا آغاز ہوا اور اس کا اختتام ۱۹۵۳ء میں ہوا۔شاہ پار ے اتنی طویل ریاضت کے بعد ہی وجود میں آتے ہیں۔ حروف کی نقش گری اتنا آسان کام نہیں اور پھر یہ بھی کہ انھوں نے دوسری مصروفیات سے بھی ہاتھ نہیں کھینچا تھا، بلکہ انھیں قال اللہ اور قال الرسول کی محفل علم و معرفت سجانے اور تصوف و سلوک کی راہ پر چلنے والے ارادت مندوں کی دست گیری کے ساتھ سیاست کی زلف پریشاں کو بھی سنوارنا تھا کہ
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ۴۴۸ صفحات تک ہھیلا ہوا ہے۔ شروع کے ۱۸۰ ؍صفحوں میں خاندانی اور شخصی کوائف درج ہیں۔ اس کے بعد اپنے استاد گرامی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا مختصر تذکرہ کر کے اس وقت کی مروجہ ہندستانی سیاست کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں انگریزوں کی ظلم پیشہ طبیعت کا بیان بھی ہے اور ہندستانیوں خصوصا مسلمانوں کی مظلومیت کی دل خراش داستان بھی۔ دوسرا حصہ ۳۵۲؍ صفحات کو محیط ہے۔ جس میں اسلامی ریاستوں پر یورپی ممالک کی یورش اور استخلاص وطن کے لیے شاہ عبد العزیز، سید احمد شہید اور حضرت شیخ الہند کی انقلابی تحریکوں کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔
نقش حیات مولانا مدنی کی تعلیمی، تدریسی اور سیاسی زندگی کا بیان ہی نہیں، بلکہ ملکی اور بیرونی حالات و کوائف کا بھی حسین مرقع ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کتاب پر تعارفی کلمات میں لکھتے ہیں:
’’یہ کتاب صرف حضرت مد ظلہ العالی کی سوانح حیات ہی نہیں رہی، بلکہ ہندستان میں انگریزوں کی آمد سے لے کر ان کے اقتدار کے خاتمے تک تمام نمایاں واقعات کا مجموعہ، برطانوی حکومت کی تباہ کن ڈپلومیسیوں اور سیاسی مکر و فریب کا انسائیکلوپیڈیا، حضرت شیخ الہند کی تحریک حریت اور اس عرصے کے سیاسی رجحانات اور انقلابی تحریکات کا وہ مستند اور جامع تذکرہ ہے ، جس کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے، جو ماضی سے سبق لے کر مستقبل کی فکر کرنا چاہتا ہے۔ اور ہند یونین میں ملت اسلامیہ کی عزت و عظمت کا آرزومند ہے۔‘‘(نقش حیات، ص:۱۴)
نقش حیات کے مضامین اور اس کی زبان و بیان اور طرز ادا کیسی ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق، اس پر آج تک کسی ادیب یا اردو کے ریسرچ اسکالر نے تفصیلی بحث نہیں کی۔میں مانتاہوں کہ مولانا مدنی کوئی صاحب طرز ادیب یا انشاء پرداز نہیں تھے۔ وہ شاعر تھے، نہ ’نثر نگار‘وہ تو ایک صوفی منش آدمی تھے، جن کے اعصاب پر بس ایک ہی فکر سوار رہتی تھی اور وہ تھی ملک و قوم کی انگریزوں کے چنگل سے آزادی۔ ایسی صورت میں لفظوں کی مینا کاری کے ذریعے، کوئی اپنی زبان دانی کا کیسے ثبوت دے سکتا تھا۔مصلح قوم سر سید بھی بس قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے، نہ کوئی اہتمام اور نہ التزام، نہ تکلف اور نہ تصنع، ان کے ہاں آمد ہی آمد تھی، آورد کا کوئی دخل نہ تھا ، قوم مسلم کو جگانے کے لیے وہ ادبی ملمع سازی سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ ان کا زور بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر تھا۔ مولانا مدنی نے بھی انھی نکات پر اپنی خود نوشت یا دوسری تحریریں سپرد قلم کی ہیں۔مولانا مدنی کی حالت تو حالی کے الفاظ میں اس شخص کی سی تھی جس کے گھر میں آگ لگی ہو اور وہ پاس پڑوس کے لوگوں کو مدد کے لیے پکارے، ایسی صورت میں اس کے پاس عبارت آرائی اور لفاظی کے لیے گنجائش کہاں نکلے گی۔ وہ تو بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر زور دے گا۔
لیکن حقیقت کی نظروں سے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ مولانا نے اس عجلت اور مدعا نگاری میں بھی زبان و بیان کی حد بندیوں کا خیال رکھا ہے۔ ان کی تحریر کو پرھتے ہوئے خشکی اور حد سے زیادہ سنجیدگی کا احساس تو ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹھوس علمی اور تحقیقی زبان لکھی ہے اور انھوں نے آپ بیتی سے زیادہ جگ بیتی کا خیال رکھا ہے اور پاپ بیتی کی طرف تو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔کیوں کہ ایجاد معانی تو خداداد ہوتی ہے۔ اس کے لیے جوش ملیح آبادی کی طرح فرصی عشقیہ داستانوں کا پیوند لگانے کی ضرورت نہیں۔ مولانا حقیقت و صداقت کا تھامے رہنے کے باوجود زبان و بیان کی حد بندیوں کا پورا خیال رکھتے تھے۔
مجھے ذیل کی سطروں میں نقش حیات کے مضامین اور اس کی تاریخی یا سیاسی حیثیت سے بحث نہیں کرنی ہے کہ اگرادبی معیاربندی کا یہ اصول قرار پاجائے تو پھر ہمیں بہت سے ادبی مسلمات اور تاریخی حقیقتوں پر خط تنسیخ کھنچنا پڑے گا۔ واقعات اور مواد اور تاریخ نگاری کے حوالے سے کسی دوسری خود نوشت تحریر سے نقش حیات کا کوئی علاقہ نہیں۔ شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔مجھے صرف زبان و بیان اور خود نوشت کے نام نہاد اصول کی عینک سے اس کو دیکھنا ہے اور شکستہ آڑی ترچھی لکیروں کے ذریعے نقش حیات کی وہ تصویر ابھارنی ہے جو ہمارے ذہنی اور ادبی جمود پر ہلکی سی ضرب لگا سکے۔
جو کچھ لکھا جائے بے تکلف اور قلم برداشتہ لکھا جائے۔ یہی طرز تحریر نثر میں محبوب اور مروج ہے۔ نہ جانے کیوں مولانا حالی نے شاعری میں ستر کنویں جھانک کر الفاظ کے تفحص کی ستائش کی ہے۔ خیر شاعری میں تو یہ قدم محبوب اور قابل تقلید ہو سکتا ہے، لیکن نثر خاص طور سے خود نوشت میں تو یہ طرز تحریر کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوسکتا۔مولانا مدنی کے موئے قلم سے ایسے بے تکلف اور پر معنی جملے ادا ہوئے ہیں جن پر مقفی اور مسجع تحریروں کا انبوہ قربان کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے طویل جملے نہیں لکھے ہیں کہ اس قسم کے جملوں سے جو دارز نفسی پیدا ہوتی ہے، قاری اس کی مشقت کا بار اٹھانے کے قابل نہیں رہتا اور وہ اکتاہٹ کی گرفت میں کتاب کو ایک طرف ڈالنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ نقش حیات میں اکثر یک سطری جملے استعمال کیے گئے ہیں۔ اور بہت سے تفریعی جملوں کا اختتام ایک ہی حرف پر ہونے کی وجہ سے موسیقیت کی چاشنی بھی پیدا ہوتی ہے۔جملے اتنے چھوٹے اور پر زور ہیں کہ ان میں ڈرامائی مکالموں کی شان پیدا ہوگئی ہے۔مولانانے حسب و نسب سے جنم لینے والے امتیازات کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’اور روح نکلنے کے بعد تو جسم انسانی خواہ شریف کا ہو یا رذیل کا، بادشاہ کا ہو یا فقیر کا، قوی کا ہو یا ضعیف کاجس حالت پر پہنچ جاتا ہے سب کو معلوم ہے۔ جماد محض ہوکر پھولتا پھٹتا ہے، سڑتا گلتا ہے، کیڑے پڑتے ہیں، بدبو سخت پیدا ہوتی ہے، پیپ اور لہو بہتا ہے اور زمین میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ یہاں نہ شرافت نسبی کچھ فرق کرتی ہے ، نہ دولت و ثروت، نہ حکومت و قوت‘‘(ص:۳۲۔۳۳)
مولانا حسین احمد مدنی کو شاعری سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی فارسی اور عربی کے بہت سے اشعار انھیں ازبر تھے، جن سے وہ اپنی تحریروں میں موقع بموقع استدلال کرتے ہیں۔ ان اشعار کی تعداد غبار خاطر کی طرح اتنی تو نہیں ہے کہ اس کے لیے محققین الگ سے اشاریہ ترتیب دیں لیکن فارسی کے جتنے اشعار کے بھی ان کے قلم سے نکلے ہیں وہ بے وقت کی راگنی معلوم نہیں ہوتے، ان اشعار کا مفہوم مضمون اور مخاطب کے حسب حال ہے۔ ایک جگہ اپنے اوپر اور اپنے خاندان پر خدائی انعامات و اکرامات پر شکریہ سے قاصر رہنے پر استدلال کرتے ہوئے فارسی کے یہ اشعارلکھتے ہیں:
اگر بروید از ہر مو زبانم
ادادئے شکر لطفش کے توانم
من آں خاکم کہ ابر نوبہاری
کند از لطف بر من قطرہ بازی
برطانوی سامراج نے جس طرح مکر و فریب سے کام لے کراپنے ارد گرد بد اطواروں، بد قماشوں اور جرائم پیشہ افراد کا گروہ اکٹھا کرلیا تھا اس پر طنز کرتے ہوئے یہ شعر رقم کرتے ہیں:
کند جنس باہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر باز باباز
مولانا اردو کے قدیم دواوین پر بھی نظر رکھتے تھے اساتذہ کے سینکڑوں اشعار ان کے حافظے میں موجود تھے۔ فارسی کی طرح ہی کہیں کہیں اردو کے اشعار سے بھی انھوں اپنی بات کو مزین کیا ہے۔ اپنے والد کے حب نبوی اور مدینہ منورہ سے عشق و محبت کو ان اشعار کی آنچ دی ہے کہ:
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
علمائے اہل سنت اور علمائے دیوبند کے سر پر جس طرح حسام الحرمین میں بے سروپا الزامات کا ٹھیکر ا پھوڑنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کا دنداں شکن جواب دیتے ہوئے یہ شعر لکھا کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
جب اپنے استاد اور روحانی پیشوا حضرت شیخ الہند کی تجہیز و تکفین میں شرکت سے محروم رہ گئے تو اپنی حسرت کا اظہار اس شعر سے کیا کہ
قسمت کی بد نصیبی کو صیاد کیا کرے
سر پر گرے پہاڑ تو فرہاد کیا کرے
تشبیہات و استعارات کے مرقعے بھی تحریروں کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ کسی روکھی پھیکی تحریر میں بھی تشبیہ اور استعارے کی پیوند کاری سے ان کے تن مردہ میں جان آجاتی ہے۔ لیکن وہی تشبیہ اور استعارہ چمن تحریر کی حنا بندی کرسکتا ہے جس میں بر جستگی اور شفگتگی ہو۔ بہ تکلف ڈھونڈ ی جانے والی تشبیہیں کہاں کی اینٹ، کہاں کا روڑا ثابت ہوتی ہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی نے بھی اپنی تحریر کی جڑوں میں تشبیہ کا آب حیات دیا ہے۔ اور یقین کرنا پڑتا ہے کہ تمام تر علمی اور سیاسی مصروفیت کے باوجود وہ اس ہنر سے عاری یا غافل نہیں تھے۔ جب مولانا اور ان کے گھر کے دوسرے افراد نے مل کر ان کے والد محترم کو مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنالینے کی ترغیب دی، تو اس مطالبے کو اس طرح تشبیہ دی ہے:
’’یہ کلمات ایسے مؤثر واقع ہوئے جیسے کہ اسپرٹ میں دیا سلائی ہوتی ہے۔‘‘(ص:۴۷)
اسی طرح جب مولانا کی اہلیہ کے ماموں نے مولانا کے والد محترم سے اپنی یہ خواہش ظاہرکی کہ میں اس کو لکھنؤ میں رکھ کر طب پڑھاؤں گاتو والد کے انکار اور دینی اور عصری تعلیم کے مابین فرق کو کتنی خوب صورت تشبیہ دی ہے:
’’والد صاحب نے جواب دیا کہ کیا حسین احمد مدنی کو گھوڑے پر سوار کرنے کے بعد میں گدھے پر سوار کروں گا۔ (ص:۴۸)
اسی طرح ہندستان کی دولت و ثروت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’۱۷۷۲ء میں صرافوں کی دکانوں پر شہروں میں اشرفیوں اور روپیوں کے ڈھیر ایسے لگے ہوئے تھے جیسے منڈیوں میں اناج کے ڈھیر ہوتے ہیں۔‘‘(ص:۲۳۰)
مولانا نے کسی بھی چیز کا ذکر کرتے وقت اس کی تمام جزئیات اور مالہ و ماعلیہ کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ مدینہ منورہ میں پانی لانے کے لیے سقے متعین ہوتے تھے، جو نہر زرقاء سے پانی لانے کا کام کرتے تھے۔ نہر زرقاء کا دکر کرتے ہوئے مولانا نے اس کے جائے وقوع، اس کے اجمالی پس منظرکے عنوان سے دو صفحے کا طویل مصمون لکھا ہے، جس میں اس کے ابتدائی عہد سے لے کر اس کی موجودہ حیثیت تک کا تفصیل سے ذکر کیا گیاہے۔ اس حصے کو پڑھتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کے چڑیا چڑے اور چائے والے خطوط کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس میں انھوں نے اپنی انشاء پردازی کا ثبوت دیا ہے۔مولانا نے اس نہر کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ ایک جگہ ہندستان کی خوبیوں اور اس کی مابہ الامتیاز حصوصیات کا شمار کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے:
’’اس زمانے میں عام طور سے ہندستانیوں میں مہمان نوازی، انسانی ہمدردی، غرباء اور مصیبت زدوں پر شفقت اور رحم، عہد و پیمان کا تحفظ اور پابندی، خدا ترسی اور سچائی، امانت داری اور سخاوت، وفا داری اور صداقت، دیانت داری اور عدالت، بلند حوصلگی اور شرافت، بیدار مغزی اور جفا کشی، چستی اور بیداری، شجاعت اور مردانگی وغیرہ اوصاف جمیلہ بڑے پیمانے پر پائے جاتے تھے۔‘‘(ص:۱۹۴)
الفاظ کی تکرار سے غنائیت پیدا ہوتی ہے۔ قدیم شعراء کے دواوین لفظوں کی تکرار والی صنعت سے لبریز ہیں۔ مولانا بھی اس ہنر سے عاری نہیں ہیں۔ شاہان ہند کی رواداری اور ان کے مساویانہ او ر عدل پرور نظام حکومت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہی نہیں، بلکہ اپنی بے مثل ثروت، بے مثل تجارت، بے مثل دست کاری، بے مثل تمدن اور بے مثل طاقت کی بنیاد پر اقوام عالم میں برتری اور سب سے فوقیت کا درجہ رکھتے تھے۔‘‘(ص:۱۸۵۔۸۶)
اسی طرح ایک ہی وزن کے متضاد الفاظ کے ذریعے بھی غنائیت اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔ تنافس و تنافر، اعمال و اخلاق، ذکر و فکر، خلافت اور اجازت، معماروں اور مزدوروں، اخلاق عالیہ اور اعمال صالحہ، سلام و پیام وغیرہ مرکبات مختلف مواقع پر قاری کی موسیقیت پسندی کے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
صنعت تضاد سے بھی تحریر میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ اس سے جہاں قاری کی ذہنی ورزش ہوتی ہے وہیں وہ دو مختلف تصورات سے بھی آگا ہ ہوتا ہے۔ اس سے اشیاء کے حسن و قبح کا پہلو بھی نکھر کر سامنے آتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے۔ الاشیاء تتبین باضدادہا۔مولانا گرچہ شاعر نہ تھے، مگر اس ادبی خصوصیت سے نا واقف نہ تھے۔لکھتے ہیں:
’’رحمت اور انعام خداوندی کی بے نیازی اور وسعت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ دم کی دم میں ذرہ کو پہاڑ اور قطرے کو سمندر بنادے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔عامی مسلمان کو قطب الاقطاب بنادے۔ جاہل کو عالم اور دیوانہ کو افلاطون کردے تو کچھ مستبعد نہیں۔‘‘(ص:۳۳)
مولانا کی نظراردو کے محاوروں، ضرب الامثال اور روزمرہ پر بھی بڑی گہری تھی۔ دیکھیے نقش حیات میں استعمال ہونے والے چند محاوروں، ضرب الامثال اور روزمروں کی جھلک۔مجھ پر نزلہ زیادہ گرتا تھا، وہ ہمیشہ کاٹ کرتے تھے، میری اولاد پھلے پھولے گی، خاندان کے بڑھنے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، کس کے پلے پڑجائیں، اپنا الو سیدھا کرنا، مگر خدا جانے اس بے شمار دولت اور بے نظیر سرمایہ کو زمین کھاگئی یا آسمان اچک لے گیا،فورٹ ولیم میں سونے کا مینہ برسنے لگا، ایڑی چوٹی تک زور لگادیا، کامیابی کے ڈنکے بھی بجائے، تنگ آمدبجنگ آمد، پانی سر سے اوپر گزر چکا تھا وغیرہ۔
مولانا کی تعلیم عربی اور فارسی میں ہوئی اور مسجد نبوی میں تعلیم و تدریس کے طویل تجربے نے انھیں عربی کا مرد میدا ن بنادیا تھا، اسی لیے ان کی تحریروں پر عربی اور فارسی کا گہرا نقش ملتا ہے، لیکن مولانا بلاغت کے اصول سے نا واقف نہیں تھے۔ وہ خود نوشت اردو میں لکھ رہے تھے اور انھیں اپنے مخاطب کی علمی قابلیت اور ذہنی رسائی کا بھی خوب اندازہ تھا۔ اسی احساس کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے مقامی زبان کے عام فہم ہندی الفاظ کو بھی جملوں میں برتا ہے، جس کی وکالت مولانا سید سلیمان ندوی بھی کیا کرتے تھے۔نقش حیات میں چھپ لک کر، اپر تلی، ٹٹپونجیوں، استری اور کلف، ہنڈی، ٹاٹ، ڈنٹھڑ، ڈھلوان، ڈھارس، گارا ڈھونا، اینٹیں پاتھنا وغیرہ خالص مقامی الفاظ ملتے ہیں۔
آج سے پچاس ساٹھ سال قبل اختصاو و ایجاز کو تحریر کی معراج تصور کیا جاتا تھا۔ مولانا نے اس عام روش کو اس طرح تو نہیں اپنایا کہ اختصار کے گرداب میں اس طرح الجھ جائیں کہ تحریر ایک معمہ بن جائے، بلکہ انھوں نے اپنے مخاطب اور مضمون کا لحاظ کرتے ہوئے اختصار و ایجاز سے کام لیا ہے۔ جملے نہ مختصر ہیں اور نہ طویل۔ان کی تحریروں میں نہ ایجاز مخل ہے اور نہ اکتادینے والی طوالت۔ بلکہ درمیانی راہ اختیار کی ہے۔ محشر اعظمی نے مولانا کی قلمی خصوصیات کو شمار کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’آپ کا قلم بس وہیں تک چلتا ہے جتنا اسے چلنا چاہیے۔ نہ اتنی تفصیلات اور جزئیات ہوتی ہیں کہ پڑھتے پڑھتے قاری اکتا جائے اور نہ اتنا اختصار کہ مطلب ہی خبط ہوجائے۔ جس بات کی تفصیل صروری ہوتی ہے اسے پھیلا کر لکھتے ہیں اور جس بات میں اختصار ہونا چاہیے اسے مختصر ہی لکھتے ہیں‘‘(روزنامہ الجمعےۃ، شیخ الاسلام نمبر، ص:۱۷۳)
نقش حیات میں ا ختصار و جامعیت سے عبارت اس طرز تحریر کا انھوں نے بھرپور لحاظ رکھا ہے۔ چناں چہ اپنے ذاتی احوال تو اختصار کے ساتھ قلم بند کیے ہیں، لیکن دوسرے حصے میں قومی اور بین الاقوامی حالات پر تفصیل اور طویل حوالوں کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔
خلاصہ یہ کہ نقش حیات میں معانی کا دریا بھی رواں ہے اور زبان و بیان کی نہر بھی بہ رہی ہے۔ یہ صرف معلومات کا خزینہ ہی نہیں، ادبی لطافت کا مرقع بھی ہے۔ نثر کے لیے سادگی، سلاست، اختصار وجامعیت، قطعیت، صراحت اور وضاحت کی جتنی شرطیں درکار ہیں، ان پر نقش حیات سو فی صد نہیں تو ننانوے فی صد ضرور اترتی ہے۔ مشکل سے مشکل مضمون کو انھوں نے آسان جملوں میں قلم و قرطاس کے حوالے کردیا ہے۔ جو زبان و بیان پر ان کی مہارت کی دلیل ہے۔ انگریزوں کے دجل و فریب اور ان کی ظالمانہ پالیسیوں کے حوالے سے کوئی بات بے دلیل نہیں ہے۔ انگریزی اور اردو کے سینکڑوں حوالے قاری کو ایقان کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ہر بات قاری کو یقین وعمل اور محبت و معرفت کی لذت سے شرسار کرتی ہے۔ اور دل پر اپنا اثر مرتب کرتی ہے۔ یادوں کی بارات کی طرح خالی خولی بے لطف الفاظ کا مجموعہ نہیں، نہ عشق و عاشقی کے فرضی واقعات سے آلودہ ہے، لیکن پھر بھی خدا معلوم کیوں ہمارے ناقدین اورخود نوشت نگاری پر ریسرچ کرنے والوں نے اس پر مطلوبہ توجہ نہیں دی ہے۔ نا مکمل خود نوشتوں پر بحث کی گئی ہے، مگر ایک مکمل خود نوشت کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔نقش حیات صرف اپنے مصامین و مشمولات کے اعتبار سے ہی نہیں، زبان و بیان کے اعتبار سے بھی تحقیق کا موضوع بن سکتی ہے۔ نقش حیات کوئی ناول اور افسانہ تو نہیں لیکن تاریخی و سیاسی حقائق کا نگار خانہ ضرور ہے۔اس میں نام نہاد فنی جمالیات تو نہیں، لیکن خود نوشت کی دوسری صفات خود اظہاریت اور تاریخی صداقت کا سنگم ضرور ہے۔یہ قلب میں سوز اور روح میں احساس کے ساتھ تحریر کی گئی ہے، ایسا قلب جو لا الہ کی صدائے الوہی سے سرشار تھا۔اور ایسے صاحب دل بزرگ کے قلم کا نتیجہ ہے جو شب زندہ دار ہونے کے ساتھ رسم شاہبازی ادا کرنے کے لیے میدان جنگ میں بھی شہ سواری کا فرض انجام دیتا تھا۔یہ ایسے مرد مجاہد کی داستا ن حیات ہے جس کے رگ و پے میں مستی کردار کا لہو گردش کرتا تھا۔یہ ایسے شخص کی روداد زندگی ہے جو قوم کی حالت اور قوم کی امامت دونوں ہنر سے آشنا تھا۔ ا س کی زندگانی صداقت، عدالت اور شجاعت کے خمیر سے تیار ہوئی تھی۔ اس کے اندر کسی قسم کی تعلی یا نفس پروری نہیں تھی اور حالی نے جوخود نوشت کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ اس میں تعلی اور خود ستائی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور خودد نوشت تمام کاموں سے سبک دوشی حاصل کرنے کے بعد لکھی جائے، ان دونوں شرطوں پر یہ خود نوشت مکمل اترتی ہے۔ اسی لیے ضرورت ہے کہ ہماری ادبی حس بیدار ہو اور ساٹھ سال بعد ہی سہی اس کی ادبی قدر و قیمت کا جائزہ ضرور لیا جائے،کیوں کہ یہ محض کتاب ہی نہیں، علم و معانی کا بحر بے کراں ہے، جس سے ہر دور میں مستقبل کی تعمیر کا نقشہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ دور حاضر کے مشہور تخلیقی ناقد حقانی القاسمی نے اسی شکوہ کا اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’ادبی اور علمی دونوں اعتبار سے اس(نقش حیات) کا شمار اہم خود نوشتوں میں ہوتا ہے۔ گوکہ تنگ نظر ناقدین اس کے دکر سے اعراض کرتے ہیں، مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو خود نوشت کے فنی تقاضوں پر یہ کتاب پوری اترتی ہے۔ جس میں مولانا موصوف نے نہ صرف اس عہد کو زندہ کردیا ہے، بلکہ اس عہد کی پوری سیاسی اور سماجی تاریخ بھی اس کتاب میں سماگئی ہے۔ اس لحاظ سے نقش حیات ایک مقصدی خود نوشت ہے نہ نرگسیت کی شکارخود ستائی یا خود بینی کی مظہر‘‘(دارالعلوم دیوبند، ادبی شناخت نامہ، ص:۷۰)
نقش حیات تو ہمارا مشترکہ علمی، تاریخی اور ادبی سرمایہ اور مشرقی اقدار حیات کا خزانہ ہے۔ یہ اہل علم و ادب کی وہ متاع فراموش کردہ ہے، جس کی تحقیقی بازیافت اور اس کی تعیین قدر کرکے ہم اپنے مستقبل کی تعمیر و ترقی کا نقشہ تیار کرسکتے ہیں۔ ارود کے ریسرچ اسکالرز کو عموما اور سوانحی ادب پر کام کرنے والوں کو عموما اس کی علمی اور ادبی بازیافت کے لیے اس مصرع کے ساتھ آواز دی جاسکتی ہے کہ
اے اہل ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو
(بصیرت فیچرسروس)
***
ابرا ر احمد اجراوی
روم نمبر۲۱؍لوہت ہاسٹل
جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی
موبائل:9910509702