Monday, 30 September 2013

Abrar ahmad ijravi



ہندستان کی علاقائی زبانوں کو یو پی ایس سی کے امتحانات سے ہٹانے کا حالیہ فیصلہ
مقامی زبانوں کے پردے میں اردوزبان اور مسلم طلبہ نشانے پر

تغیر اور تبدیلی انسانی زندگی کا خاصہ ہے۔ شاعر نے صحیح کہا ہے ثبات صرف تغیر کو ہے زمانے میں۔زمانے کی تیز رفتار ترقی کے پہلو بہ پہلو نہ چلنے والا شخص زندگی کے لق ودق صحراء میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ روئے زمین پر سانس لینے والے ہر شخص کو زمانے کی قیامت والی چال کے پیچھے دوڑنا اور بھاگنا پڑتا ہے۔مگر وہی تبدیلی محبوب اور مستحسن قرار دی جاسکتی ہے جس سے انسانی زندگی کے دوسرے لازمی شعبے متأثر نہ ہوں۔ اگر تبدیلی محض تبدیلی کے نقطۂ نظر سے دوسروں کو نقصان پہنچانے کی مذموم پالیسی سے مغلوب ہو کر برپا کی جائے اور اس کا منفی اثر دوسرے سماجی شعبوں پر پڑے، تو یہ نہ صرف متعلقہ قوم اور ملک کے لیے بلکہ پورے انسانی معاشرے کے لیے ناسور اور وبال جان بن جاتی ہے۔ اور اس کا یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کے گرداب میں الجھ کر انسانی معاشرے کا عام فرد ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
یونین پبلک سروس کمیشن ملک کا اعلی اور معیاری ادارہ ہے، جو سال بھر میں سول سروسز کے لیے ایک بار ملکی پیمانے پر امتحانات منعقد کراتا ہے۔ اس امتحان کے تین مرحلوں(Pre/Mains/Interview) میں کامیاب ہونے والے طلبہ اور طالبات ہی ملک کے اعلی ترین عہدوں پر فائز کیے جاتے ہیں۔یہ کامیاب طلبہ اور طالبات آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس اور آئی آر ایس وغیر ہ بن کر ملک کا نظم و نسق سنبھالتے ہیں۔ ان افسران کی متنوع اور غیر معمولی ذمے داریوں کو پیش نظر رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ ملک کی ہمہ جہت تعمیر اور ترقی کے لیے شہ رگ کی حیث رکھتے ہیں۔ سیاست اور اقتصادیات سے لے کر، خارجہ اور داخلہ پالیسی تک ملک کی تصویر اور تقدیر انھی کامیاب امیدوارں کی سوچ اور سمجھ بوجھ پر منحصر ہوتی ہے۔ ان امتحانات میں کامیابی ملک کے ہر طالب علم کا دیرینہ خواب ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اپنے تابناک مستقبل کے حوالے سے متفکر اور اعلی عہدوں پر متمکن ہوکر ملک و قوم کی خدمت کے جدبے سے شرسار طلبہ میٹرک اور انٹر کے بعد ہی اس امتحان کے مبادیات کی تیاری اور بھاگ دوڑ شروع کردیتے ہیں۔ یو پی ایس سی کے امتحانات اتنے سخت اور مشکل اور صاف و شفاف ہوتے ہیں کہ اس کے پہلے مرحلے(پری) کو ہی عبور کرناامیدواروں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس میں کامیابی کے بعدہی (Mains)اور انٹرویو کا مرحلہ آتا ہے۔
یو پی ایس سی وقفے وقفے سے امتحان کے طریقۂ کار، موضوع اور سوالات کے پرچوں کی نوعیت میں تبدیلی کرتا رہتا ہے۔دو سال پہلے Pre  کے امتحان سے اختیاری مضامین ہٹاکر CSAT متعارف کریا گیا اور اس باراس نے اپنے(Mains) امتحان کے فارمیٹ میں زبردست تبدیلی کی ہے۔ لیکن اس بار کی تبدیلی کا عمل ماقبل کی اصلاحات سے مختلف بھی ہیں اور سنگین بھی، یہ تبدیلیاں ہمہ گیر بھی اور دور رس اثرات کی حامل بھی۔یہ ساری تبدیلیاں یو جی سی کے سابق سربراہ پرووفیسر ارون ایس نگویکر کی قیادت میں تشکیل شدہ کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کی گئی ہیں، جس کو ہمارے وزیر اعظم نے حال ہی میں منظوری بھی دے دی ہے۔ امتحان کے طریقۂ کار میں اس تبدیلی کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے، جس کا نفاذ ۲۰۱۳ء کے امتحان سے ہوجائے گا۔
منظور شدہ سفارشات کے مطابق اب انگریزی زبان کا امتحان دینا لازمی ہوگا اور اس کے نمبرات بھی میرٹ میں جوڑے جائیں گے۔ماقبل میں انگریزی کا پرچہ صرف کوالیفائنگ کی حد تک اور پاسنگ نمبرات تک محدود تھا۔دوسرے یہ کہ اب ہندستان کی مقامی زبانیں اختیاری مضمون کے طور پر نہیں رکھی جاسکتیں، حالاں کہ پہلے انگریزی زبان کے ساتھ کسی ایک ہندستانی زبان میں میں بھی کم از کم نمبر حاصل کرنا ضروری تھا لیکن اس کا نمبر میرٹ میں نہیں شامل کیاجا تھا۔ یو پی ایس سی کے تبدیل شدہ فارمیٹ میں ایک شرط کا اور اضافہ کیا گیا ہے، وہ یہ کہ دستور ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل کسی بھی علاقائی زبان کے ادب کو اب وہی امیدوار طلبہ منتخب کرسکیں گے جنھوں نے بی اے میں اس موضوع کو مین سبجیکٹ کے طور پر پڑھا ہوگا۔یہ شرط صرف لٹریچر کے ساتھ لگائی گئی ہے، جب کہ سائنس اور سماجی علوم کے مضامین کے لیے ایسی کوئی شرط نافذ نہیں کی گئی ہے۔صرف اسی پر بس نہیں ، بلکہ یو پی ایس سی نے امتحانات کے میڈیم میں بھی ہنگامہ خیز تبدیلی کردی ہے۔ اب ہندی اور انگریزی کے علاوہ امتحان کا میڈیم وہی زبان ہوسکتی ہے، جو بی اے میں بھی اس طالب علم کا میڈیم رہی ہو۔مزید یہ کہ اس میڈیم میں پرچۂ امتحانات لکھنے کے لیے یہ بھی لازمی کردیا گیا ہے کہ اس میڈیم میں امیدوار اسی وقت پرچۂ سوالات حل کرسکتے ہیں جب امتحان میں شریک اس میڈیم کے مجموعی طلبہ کی تعداد ۲۵؍ سے کم نہ ہو۔بصورت دیگر انھیں ہندی اور انگریزی میں ہی لازمی طور پرپرچۂ سوالات حل کرنا ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوںیو پی ایس سی جیسا ملک کا باوقار اور معتبر ادارے اتنی بڑی تبدیلی کا خواہاں ہے اور کیوں مذکورہ  تبدیلی پر مبنی سفارشات پر پارلیمنٹ میں مہر تصدیق ثبت کردی گئی، اور اس کو وزیر اعظم سے منظو ری ملنے کے بعد آئندہ امتحانات سے نافذ العمل کردیا گیا۔ کیا یہ پہلے ہی سے کس مپرسی کا شکار ہندستان کی علاقائی زبانوں کے ساتھ نا انصافی نہیں؟ انگریزی زبان کی لازمی شمولیت کیا یہ مغربی تہذیب کی چکاچوند سے ہماری مرعوبیت کی دلیل نہیں؟ کیا یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی اور اپنی دھرتی پر جنم لینے والی شیریں زبانوں کو چھوڑ کر غیر ملکی زبانوں پر انحصار کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟یہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ ہمارے قومی اور علاقائی تہدیب و ثقافت کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ ہے، بلکہ ہمارے قائدین ملک اور مجاہدین آزادی نے مادری زبان میں تعلیم کا جو خواب دیکھا تھا، اس کی تکمیل کی راہ میں بھی ایک بڑا روڑا ثابت ہوگا۔
حکومت کے اس فیصلے پر سارے سیکولرہندستانی اور ماہرین تعلیم حیران اور استعجاب کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندستان میں سرکاری اسکولوں کے معیار تعلیم کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ ہماری حکومت سند یافتہ ناخواندہ افراد کی ایک ایسی بھیڑ تیار کرنا چاہتی ہے، جو نہ کسی تعلیمی ادارے میں درس وتدریس کے قابل رہیں اور نہ ہی محنت و مشقت کرکے روزی روٹی کمانے کے لائق۔حکومت نے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ(RTE Act) کے تحت یہ شرط بھی لگادی ہے کہ پرائمری اور مڈل اسکول کی سطح پر یعنی آٹھویں تک کسی بھی بچے کو امتحان میں فیل نہیں کیا جائے گا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا، بلکہ میٹرک میں بھی کچھ ایسا کمزور اور ڈھیلا نظام تعلیم اور طریقۂ امتحان حکومت نے تشکیل دے رکھا ہے کہ اس اہم امتحان میں بھی ہر بچے کو کامیابی کا سرٹیفکٹ مل جاتا ہے۔ حکومت نے اس امتحان میں یہ سہولت دے رکھی ہے کہ اگر طالب علم کسی بھی زبان والے مضمون (خواہ وہ انگریزی ہو، فارسی ہویا اردو)میں ۲۵؍ نمبر حاصل کرلے تو اس کو کامیاب قرار دیا جائے گا۔ طرفہ تماشا یہ کہ یہ ۲۵؍ نمبرات بھی طالب علم اپنی محنت اور صلاحیت کے بل پر حاصل نہیں کرتا، بلکہ ہمارے لنگڑے لولے تعلیمی سسٹم کی بدولت آسانی سے بغیر پڑھے لکھے گھر بیٹھے حاصل کرلیتا ہے۔نہ مہندی لگتی ہے، نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔وہ اس طرح کہ اساتذہ کے پاس زبانی امتحان کے نام پر جو ۲۰؍ نمبر ایکسٹرا ہوتے ہیں،وہ سارے نمبر طالب علم کو بڑی آسانی سے یا اساتذہ کی جیب گرم کردینے سے مل جاتے ہیں، باقی ۸۰؍ نمبرات میں سے اس کو اگر ۵؍ نمبر بھی مل جائے تو اس کو کامیابی کا تمغہ تھمادیا جاتا ہے، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ۸۰؍ میں سے یہ ۵ یا ۱۰؍ نمبر بھی اکثر طلبہ حاصل نہیں کرپاتے۔
انگریزی زبان کی تعلیم کا توہمارا یہ حال ہے اور کہاں مسند اقتدار پر براجمان ہمارے ارباب حل و عقد، جنھیں زمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں، انگریزی کو لازمی زبان قرار دینے کی حماقت کرنے جارہے ہیں۔کیا انھوں نے اپنے ملک کے بنیادی تعلیمی سسٹم کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ جو بچہ ۱۰۰؍ میں سے ۱۰؍ نمبر بھی جس زبان میں حاصل کرنے کا اہل نہ ہو، وہ کس طرح یو پی ایس سی کے امتحان میں لازمی زبان انگریزی کے سوالات کو کما حقہ حل کرپائے گا۔ کیا وہ اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام میں اتنی اصلاح ہوچکی ہے کہ ہر بچہ اس زبان میں فر فر لکھ،پڑھ اور بول سکتا ہے۔انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ سارے بچوں کے گارجین کے پاس اتنی استطاعت نہیں کہ وہ بھاری ڈونیشن اور خطیر فیس کا بوجھ اٹھاکر اپنے بچوں کو اعلی معیار کے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھا سکیں۔ آخر انھوں نے کیسے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہندستان کی مقامی زبانوں میں پرچہ حل کرنا قابل قبول نہیں ہوگا۔ کیا مقامی زبانوں میں پرچہ حل کرنے اور لکھنے پڑھنے سے بچوں کی تعلیمی نشوونما متأثر ہوتی ہے؟کیاہندستان کے دستور میں شامل ۲۲؍ زبانوں کو اختیاری مضمون کی صف سے نکالنے کا یہ احمقانہ فیصلہ ،بابائے قوم مہاتما گاندھی، ڈاکٹر داکر حسین اور سر سید کے اس تصورتعلیم کے صریح منافی نہیں کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے۔ کیایہ ہمارے ارباب حل و عقد کے قول و عمل کا تضاد نہیں کہ کہاں وہ ہندستان کی علاقائی زبانوں کے تحفظ اور اس کے فروغ کا دستوری دفعات کی روشنی میں عہد کرتے ہیں اور کہاں پارلیمنٹ کی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر یہ فیصلہ کہ مقامی زبان میں یو پی ایس سی کا پرچۂ سوالات حل نہیں کیا جاسکتا۔ ہندی اس ملک کی قومی زبان ضرور ہے، مگر اس ملک کی آزادی اور اس کو ترقی کے ہم دوش ثریا کرنے میں دوسرے مقامی زبانوں خاص طور سے ارود زبان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں، بلکہ اس عظیم جمہوری ملک کی پہچان اور شناخت بھی ہے۔ کیا ہمارے موجودہ وزیر اعظم کو یہ علم نہیں رہا کہ مقامی زبانوں میں وہی اردو بھی شامل ہے جس کے اشعار کو اکثر اپنی تقریر میں وہ خود اور دوسرے ارباب سیاست بھی دہرایا کرتے ہیں۔یہ وہی زبان ہے جس کو ہمارے پہلے وزیر اعظم پنڈت جوالہر لعل نہرو اپنی مادری زبان کہا کرتے تھے۔جس آئین ہند کی پاس داری کا ہمارے رہ نما حلف براداری کے وقت عہد کرتے ہیں ، اس کی دفعہ ۲۹(۱) میں یہ صراحت موجود ہے کہ ہندستانی شہریوں کو اپنی الگ زبان، طرز تحریر اور ثقافت کے تحفظ کا حق حاصل ہوگا۔ان کے قول و عمل کے تضاد پر چودھری محمد نعیم کا یہ شعر مکمل صادق آتا ہے
سب مرے چاہنے والے ہیں، مرا کوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں ارد کی طرح رہتا ہوں
اس پابندی کا سب سے زیادہ اثران زبانوں پر پڑے گا جو حکومت کی ستم ظریفی اور اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہیں۔ خاص طور سے بیچاری یتیم اردو زبان سے کچھ کرنے کا جذبہ اور ولولہ رکھنے والے طلبہ ان پابندیوں کی وجہ سے حوصلہ ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ چند سال قبل تک اردو میڈیم سے یو پی ایس سی کا امتحان دینے والے طالب علم امتحانات میں نمایاں مقام حاصل کرتے تھے، سید محمد افضل اور موجودہ عہد کے معروف فکشن رائٹر سید محمد اشرف سے ہندستان کا کون پڑھا لکھا شخص واقف نہیں جنھوں نے اردو میڈیم کے ذریعے یو پی ایس سی جیسا اعلی ترین امتحان پاس کیا، بہار کے داخلہ سکریٹری عامر سبحانی اورکشمیر کے شاہ فیصل کا نام اب بھی ہمارے دہنوں میںتازہ ہوگا، جنھوں نے ارود کو اختیاری مضمون رکھ کر یو پی ایس سی کا امتحان ٹاپ کیا۔ کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلمانوں کی صف سے اب کوئی اورسید محمد افضل، سید محمد اشرف ،عامر سبحانی اور شاہ فیصل جنم نہ لے۔ اردو جو پہلے سے ہی مرکزی اور ریاستی سطح پرحاشیے پر ڈال دی گئی ہے، اس کو میڈیم کے طور پر رکھنے کے لیے مجموعی طلبہ کی ۲۵؍ کی شرط والی شق کا بھی سب سے زیادہ عتاب اسی زبان پر نازل ہوگا۔ آخر کتنے ایسے طلبہ ہوتے ہیں جو یو پی ایس سی میں اردو کو میڈیم کے طور پر منتخب کرتے ہیں، ۲۵؍ کی شرط لگانا کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہوسکتی، اس طرح سارے مسلم طلبہ جو اردو میں ہی یو پی ایس سی کا امتحان دینا چاہتے ہیں، ان پر اعلی عہدوں تک پہنچنے کے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے۔ اس شرط کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔اگر سارے ہندستانی نہیں، تو کم از کم ملک کے۳۰؍ کروڑ مسلمانوں کے بچوں کے مستقبل کو پیش نظرر کھتے ہوئے حکومت کو اپنے اس مسلم اور اردو مخالف فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ ورنہ اس ملک کا مسلمان اور ارود جو پہلے سے ہی ملک کے معاشی اور تعلیمی نقشے میں پسماندگی اور زبوں حالی کا شکار ہیں، مزید پستی اور ابتری میں چلے جائیں گے۔
اس موقع پر اردو کے نام پر قائم اکادمیوں اور فروغ اردو کے عنوان سے قائم تنظیموں کی خاموشی بھی بڑی افسوس ناک ہے۔ جو لوگ اردو کی روٹی کھاتے ہیں اور صبح و شام اردو کی ترقی کا مالا جپ کر سیاست کے میدان میں اپنا قد اونچا کرنے کی فکر میں منہمک ہیں،ان کی مجرمانہ خاموشی اور قابل تأسف لاپروائی پر پورا اردو داں حلقہ انگشت بدنداں ہے۔ ان سے اچھے تو ملک کے ایک صوبے مہاراشٹر میں بولی جانے والی زبان مراٹھی کے پرستاران ہیں، جنھوں نے شیو سینا کے علاوہ اپنی مختلف تنظیموں کے پلیٹ فارم سے حکومت کو یہ انتباہ دیا ہے کہ اگر حکومت نے مقامی زبانوں کے تعلق سے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا تو ہم سڑک سے لے کر پارلیمنٹ اور اسمبلی تک احتجاج اور مظاہرہ کریں گے۔ اور اگر مراٹھی زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر رکھنے کے تعلق سے یہی صورت حال برقرا رہی تو ہم مہاراشٹر میں یوپی ایس سی کے امتحانات منعقد نہیں ہونے دیں گے۔
ہم کروڑوں اردو والوں کو بھی ان مٹھی بھر مراٹھیوں سے سبق لیتے ہوئے حکومت کے سامنے سڑک سے لے کرا سمبلی اور پارلیمنٹ تک اپنا احتجاج درج کرانا چاہیے، ہو سکے تو آئین و دستور کی روشنی میں ملنے والے حقوق وتحفظات کی روشنی میںعدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے۔ ہم اردو والے مراٹھیوں کی طرح کسی ایک خطے یا صوبے میں بھی محدود نہیں،ہماری تعداد تو ملک کے شمال و جنوب اور مشرق و مغرب میں ہی نہیں، سات سمندر پارامریکہ اور یورپ میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔ہمیں خود آگے بڑھ کر جام و مینا اٹھانے کا ہنر بھی سیکھنا چاہیے،صرف حکومت کے میٹھے وعدوں کے سہارے بیٹھنے سے اردو زبان و ادب کا کوئی بھلا نہیں ہوگا۔گاؤں سے لے کر ضلع اور ریاستی اسمبلیوں تک زبانی او ر تحریری طور پر احتجاج درج کرائیے، ورنہ اگر اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے،اور صرف یہ نعرہ دہراتے رہے کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے تو اس ملک کے لسانی منظر نامے سے ہماری شیریں اردو زبان عائب کردی جائے گی اور پھر تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔کیوں کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
*ABRAR AHMAD
ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL
JNU, NEW DELHI 110067
MOB:9910509702

                               چاہ کن را چاہ در پیش

 ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی نت نئے تنازعات کے حصار میں گھرتی جارہی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایک تنازع ختم نہیں ہوتا کہ دوسرانیا اور سنگین تنازع سر ابھار لیتا ہے۔۲۰۰۹ء میں جناح پر کتاب لکھنے کے جرم میں سینئیر لیڈر جسونت سنگھ کو پارٹی سے باہر کا راستہ دکھایا گیا، اسی سال مودی کے دباؤ میں قومی مجلس عاملہ سے سنجے جوشی نے استعفی دیا اور پارٹی کو خیر باد کہا، تجربے کار لیڈر نتن گڈکری کو دوسری مدت صدارت سے دور رکھا گیا، پارٹی کے خلاف بیان بازی کی پاداش میں رام جیٹھ ملانی کو بھی پارٹی کو الوداع کہنا پڑا، غرض یہ کہ معمولی معمولی باتوں پر اتنے اختلافت جنم لے رہے ہیں کہ بعض مبصرین کے مطابق بی جے پی اختلافات اور تنازعات کا معجون مرکب بن کر رہ گئی ہے۔ مارچ میںجو مودی کی ۷۶؍ رکنی نئی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، وہ بھی تنازعات کے گرداب میں پھنس کر رہ گئی تھی،کیوں کہ اس میں سینئر رہ نماؤوں کو نظر انداز کرکے ان چہروں کو فوقیت دی گئی تھی، جو مودی کے محبوب نظر اور مصاحب خاص تھے۔ در اصل جب سے آر ایس ایس کے منظور نظر شدت پسند لیڈر راج ناتھ سنگھ کے ہاتھوں میں بی جے پی کی کمان آئی ہے، برابر ان لوگوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جن پر کبھی بی جے پی انحصار کرتی تھی۔ اس وقت ایک اور بڑا بحران بی جے پی کے سر پر بادل کی طرح منڈلا رہا ہے۔ وہ ہے نریندر مودی کو انتخابی مہم کا سربراہ منتخب کرنے اور سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی کو حاشیے پر رکھنے کا معاملہ۔ گرچہ یہ بات پہلے سے طے تھی کہ گوا میں منعقدہ قومی مجلس عاملہ کی میٹینگ میں کئی بڑے فیصلے لیے جائیں گے اور نریندر مودی کو ہی انتخابی تشہیر مہم کا سربراہ مشتہر کردیا جائے گا، لیکن اڈوانی جی اور ان کے حامی لیڈران نے اخیر وقت تک انتظار کیا اور جب تمام فہمائش کے باوجود مودی کے ہاتھوں میں کمپین کمیٹی کی زمام کار سونپ دی گئی، لال کرشن اڈوانی نے اس قدم کو اپنی توہین کے مترادف تصو رکرتے ہوئے بی جے پی کے تمام عہدوں سے استعفی سونپ دیا، جوںہی استعفی کی خبر کا دھماکہ ہوا، بی جے پی کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سمیت بی جے پی کے تمام بڑے رہ نما اڈوانی کو منانے میں لگ گئے، آنا فانا پریس کانفرنس ہوئی،استعفی کا ڈرامہ بھی راتوں رات ختم ہوگیا، مگر دروں خانہ اقتدار کی یہ لڑائی کب تک جاری رہے گی اور یہ باہمی تنازع بی جے پی کو کس قیامت سے گزارے گا، کوئی ماہر نجومی بھی اس کی پیشین گوئی نہیں کرسکتا۔راج ناتھ سنگھ نے اپنے عہد صدارت میں اقتدار اور طاقت کی غیر منصفانہ تقسیم کی جو آگ لگائی ہے، وہ سرد ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
آج اگرخود پسند اور فرقہ پرست لیڈر مودی کوتجربے کار اڈوانی کے مقابلے میں اہمیت دی جارہی ہے، تو اس میں بی جے پی سربراہان سے زیادہ قصور خود اڈوانی کا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادت کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری نے راج دھرم نبھانے میں ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے مودی کو وزارت اعلی کی کرسی سے ہٹانے کی تجویز رکھی تھی تو اڈوانی نے ہی مضبوط ڈھال بن کر مودی کے کردار اور طریقہ حکومت کا دفاع کیا تھا، اڈوانی ہی وہ شخص تھے، جس نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مودی کی بر طرفی کی مخالفت کی تھی۔ اڈوانی نے ہی مودی نام کے سانپ کو خوراک دے کر تنو مند و توانا بنایا ہے، جو آج انھیں چہار جانب سے ڈس رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر عروج کے لیے زوال ہوتا ہے۔ کبھی اڈوانی بی جے پی کا نمایاں چہرہ ہوتے تھے۔ ان کے بغیرپارٹی کا تصور بھی نا ممکن تھا۔ بی جے پی کوایک چھوٹی پارٹی کے گوشہ گمنامی سے اس کو قومی پارٹی کی معراج تک پہنچانے میں اڈوانی نے ہی خون پسینہ بہایا ہے۔ بی جے پی جو کبھی دو تین سیٹیں جیتا کرتی تھی، اڈوانی کی تگ و تاز سے مرکز کے اقتدار تک پہنچی اور بی جے پی والے کئی سال تک اقتدار کا مزہ لوٹتے رہے۔ پارٹی کو اتنی ترقی دینے کا لازمی تقاضا تھا کہ اڈوانی کو وزرات عظمی کے منصب پر فائز کیا جاتا، لیکن ہر بار قسمت کی دیوی اڈوانی سے روٹھ جاتی تھی۔جب نوے کی دہائی میں وزرات عظمی کے منصب کی سپردگی کا مسئلہ سامنے آیا، تو باجپائی کے قد اور تجربے کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا، اس لیے اڈوانی وزارات عظمی کی خواہش پہ دم ہی بھرتے رہے۔ ۲۰۰۴ء میںدراز عمر ی کے سبب اٹل جی کو حاشیے پر رکھ کر اس مقصد سے انتخاب لڑاگیا کہ اگر قومی جمہوری محاذ  فتح کا پرچم لہراتا ہے تو اڈوانی جی ہی وزرات عظمی کرسی پر متمکن ہوں گے، لیکن بی جے پی کے درخشاں ہندستان کے نعرے کی ہوا نکل کر رہ گئی اور بی جے پی کو عام انتخابات میں ایسی شکست فاش ملی جس کا بی جے پی اور ان کی حلیف پارٹیوں کو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ خیر خدا خدا کرکے معمر لیڈر اڈوانی نے پانچ سال اور بن باس کی زندگی گزاری، ۲۰۰۹ء آیا، اس بار کا الیکشن مکمل طور پر اڈوانی کی سربراہی میں لڑا گیا، لیکن اڈوانی کی قسمت کا ستارہ اس بار بھی گردش میں ہی رہا،انھیں من موہن کی ٹیم کے سامنے پسپائی پر مجبور ہونا پڑا اور اس شکست پرچہار جانب اتنی نکتہ چینی ہوئی کہ اڈوانی کو بی جے پی کی صدارت سے مستعفی ہونا پرا۔بلکہ کئی سیاسی پنڈتوں نے تو اڈوانی کو سرگرم سیاست سے کنارہ کش ہوجانے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔اس بار بھی اڈوانی سمیت کئی بی جے پی رہ نماؤوں کے دروں میں وزارت عظمی کی خواہش جنم لے رہی ہے،اس لیے وہ لوگ مودی کے بڑھتے قد سے خائف ہیں۔ اڈوانی تو ہر حال میں ۲۰۱۴ء میں اپنی اس حسرت کی تکمیل کرلینا چاہتے ہیں۔مودی سے اختلاف کی جنگ کسی اصول ، پارٹی اور ملک کے مفاد کی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ سرتاسر حصول اقتدار کی جنگ ہے، جس میں اپنے آپ کو پچھڑتا دیکھ کر اڈوانی جی اور ان کے حامی اتنا پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔
آج اگراڈوانی کو اتنے برے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں، تو یہ سب ان کے کالے کرتوتوں کی دین ہے۔ انھوں نے نوے کی دہائی میں رتھ یاترا نکال کر پورے ملک میں نفرت کا زہر گھولا، ان کی موجودگی میں کار سیوکوں کی مدد سے بابری مسجد شہید کردی گئی، پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، بی جے پی اور آر ایس ایس میں تو اڈوانی کا قد بڑھ گیا، لیکن پورے ملک میں اڈوانی نے اپنا قد چھوٹا کرلیا۔ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں فرقہ پرستی کا ننگاناچ ہوا، منظم طور پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، لیکن اڈوانی اس وقت بھی مودی کی وکالت کرتے رہے، اس کے بعد بھی جتنے انتخابات ہوئے، وہ ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اگلتے رہے،وہ مدارس کو دہشت گردی کی آماج گاہ قررا دیتے رہے، وہ ہر جلسے اور ہر کانفرنس میں یہ راگ الاپتے رہے کہ ہر مسلمان تو دہشت گرد نہیں ہوتا، لیکن سارے دہشت گرد مسلمان ہی ہوتے ہیں، اس طرح انھوں نے نہ صرف اقلیتوں کی دشمنی مول لے کراپنے پیروں پر کلھاڑی مار لی، بلکہ اس ملک کے سیکولر اور انصاف پسند طبقوں میں بھی اپنی شبیہ خراب کرلی۔ ہر ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ملتا ہے، اڈوانی بھی اسی عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔
۲۰۰۵ء تو خاص طور پر اڈوانی جی کو یاد ہوگا، جب انھوں نے ملک کے عوام کو اپنے سیکولرازم کا ثبوت دینے کے لیے نہ صرف مملکت خداداد پاکستان کا دورہ کیا، بلکہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر حاضری بھی دی اور جناح کی تعریف میں چند جملے ادا کردیے، اب کیا تھا کہ آر ایس ایس والوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، اڈوانی اپنی زبان کے پکے ہیں، اس لیے انھوں نے اپنے بیان کی سیاسی تاویل و توجیہ تو کی، مگر وہ اپنے بنیادی بیان سے منحرف نہ ہوئے۔ آر ایس ایس والوں نے اس جرم کی پاداش میں ان کے سیاسی پر کترنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔انھیں بی جے پی کے عہدہ صدارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔آر ایس ایس کے اشارے پر بی جے پی نے انھیں ۲۰۰۹ء میں وزارت عظمی کا امیدوار تو اعلان کردیا، لیکن جب شکست ملی تو ان لوگوں نے عملی طور پر انھیں سرگرم سیاست سے الگ کرنے اور باجپائی کی طرح پارٹی کا سرپرست بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔ سشما سوراج کو لوک سبھا اور ارون جیٹلی کو راجیہ سبھا کا لیڈر بناکر یہی جتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اب اڈوانی وزارت عظمی کی دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں۔
اڈوانی کو مودی سے اتنی نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ سب سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ اگر اڈاوانی کو واقعی مودی سے اختلاف ہوتا اور بات اصول اور صابطے کی ہوتی تو وہ شب بھر میں اپنا استعفی واپس نہ لیتے۔ آخر کون سا ایسا معاہدہ ہوا ہے جس نے اڈوانی کو استعفی واپس لینے اور دوبارہ قومی جمہوری محاذ کو متحد کرنے پر مجبور کردیا۔ اس بات کو اب تک پردہ خفا میں کیوں رکھا گیا ہے۔ اگر اڈوانی واقعی اصول پرست سیاست داں ہوتے، تو وہ موہن بھاگوت اور راج ناتھ سنگھ سے ہونے والی خفیہ ملاقات اور وعدہ وعید کا دکر ضرور کرتے۔ اگر قومی جمہوری محاذ کو بچانا ہی مقصود تھا، تو اتنی جلد بازی میں استعفی کا قدم کیوں اٹھا یا؟اور جب موہن بھاگوت نے گوا کی مجلس عاملہ کے بعد یہ اعلان کردیا تھا کہ جو بھی فیصلہ لیا گیا ہے وہ حرف آخر ہے اس میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ، تو پھر اڈوانی نے کن ایشوز پر موہن بھاگوت سے مصالحت کی ہے ؟لگتا ہے دال میں کچھ کالا ہے۔ در اصل بی جے پی اور اس کے سارے حوالی موالی آر ایس ایس کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گئے ہیں، وہ ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر اپنی دم بھی نہیں ہلا سکتے۔ بات صاف ہے کہ اڈوانی نے آر ایس ایس کے کنبے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اپنی شکست فاش تسلیم کرلی ہے۔ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔استعفی نے سیاسی حلقوں میں اڈوانی کا قد اونچا کردیا تھا، لیکن استعفی کی واپسی نے نہ صرف یہ کہ بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، بلکہ اس سے اڈوانی کی تضحیک اور توہین کا پہلو بھی بر آمد ہوتا ہے۔
جہاں تک مودی کو انتخابی تشہیر کمیٹی کا سربراہ بنانے کا سوال ہے، تو بہت جلد عوام کے سامنے اس کا انجام سامنے آجائے گا۔ مودی گجرات کے محبوب اور ترقی پسند لیڈر ہوسکتے ہیں جہاں وہ خوف اور دھمکی کی سیاست کے سہارے اقتدار کی کرسی پر متمکن ہوجاتے ہیں۔ لیکن آر ایس ایس کنبے کو یہ بات گرہ باندھ لینی چاہیے کہ پورا ملک گجرات نہیں ہے۔ گجرات کی ترقی کے ماڈل کا چہرہ بھی سوا ارب عوام کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں جیت کا پرچم لہرانے کے لیے شمال سے لے کر جنوب اور مشرق سے لے کر مغرب تک کے ہندستان کو فتح کرنا پڑتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بی جے پی صرف مدھیہ پردیش اور گجرات اورجزوی طور پر پنجاب و بہار تک محدود ہوکر دہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ریاست میں ان کی دال نہیں گلتی۔ بہار جہاں بی جے پی اقتدار میں شمولیت کی روٹی کھا رہی ہے، وہاں بھی اس کے قدم ڈانوا ڈول ہو رہے ہیں، نتیش کمار بہت جلد بی جے پی سے علاحدگی کا اعلان کرنے جارہے ہیں۔کرناٹک بی جے پی والوں کا گڑھ تھا، لیکن یدی یورپا کی بعاوت نے وہ جوتم پیزار مچائی ہے کہ سابقہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کا وہاں سے صفایا ہوگیا ہے۔ دہلی کے تخت تک پہنچنے کے لیے بہار، بنگال، مہاراشٹر اور اتر پردیش کو بھی فتح کرنا پڑے گا، جہاں کی علاقائی پارٹیاں اتنی مضبوط ہیں کہ مودی اور ان کی ٹیم کی ایک نہیں چلے گی۔مرکز کے اقتدار تک پہنچنے کے لیے تقریبا ۲۰۰ سیٹیں جیتنی پڑیں گی، جو ظاہر سی بات ہے مودی کے لیے چنے چبانے کے مترادف ہوگا۔ مودی نوجوانوں کے محبوب لیڈر ہیں، مگر مودی کے حامیوں کے عقل کے ناخن لینے چاہییں کہ ان کی تعداد کتنی ہے، اور وہ کون لوگ ہیں ۔ میڈیائی مقبولیت کے سہارے عوام کے دلوں کو فتح کرنا ممکن نہیں ہے۔بی جے پی کو اس خام خیالی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ مودی ان کے لیے ۲۰۱۴ء میں ترپ کا اکا ثابت ہوسکتے ہیں۔ چلیے یہ فرـض کرلیتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں مودی ایک محبوب لیڈر ہیں، لیکن میڈیا سے باہر عام لوگوں میں ان کی کیا امیج ہے؟ اگر عام انتخابات میں بھی بی جے پی بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے، تو بھی مودی کی شخصیت کے اندر اتنی کشش نہیں ہے کہ وہ دوسری علاقائی پارٹیوں کو اپنے اتحاد کی چھتر چھایہ میں لا سکیں گے۔بی جے پی والوں کو ۲۰۰۴ اور ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات سے سبق لے، تو اس کی صحت کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔ جس پارٹی میں حصول اقتدار کی خواہش خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلے، اس کو مرکز کے اقتدار کی رسائی کا خواب دیکھنا بند کردینا چاہیے۔
بی جے پی کا حالیہ بحران ملک کی سیکولر طاقتوں کے لیے نیک شگون سے کم نہیں ہے۔ انھیں وقت اور حالات کا تجزیہ کرکے ہی کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ نہ تو انھیں نریندر مودی کے بھوت سے خوف کھانا چاہیے اور نہ ہی اڈوانی کی مظلومیت کے بہکاوے میں آنا چاہیے۔ ایک طبقے کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ سب کچھ اڈوانی کی شبیہ کو صاف ستھرا کرنے کے لیے ایک منظم سازش کی طرح اسٹیج کیا جارہا ہے۔ تاکہ سیکولر عوام سب کچھ بھول کر اڈوانی کی حمایت میں کود سکیں۔ یاد رکھیے کہ مودی اور اڈوانی دونوں ہی ایک ہی چکے کے دو پاٹ ہیں۔ فرقہ پرستی، نفرت اور تشدد سے ہی دونوں کا خمیر تیار ہوا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ بی جے پی مکمل طور پر آر ایس ایس کے ہاتھوں کا کھلونا ہے، وہ آر ایس ایس کا ایسا مہرہ ہے، جسے وہ سیاست کی بساط پرجب اور جہاںچاہے بٹھا سکتی ہے۔ کمپین کمیٹی کا سربراہ مودی ہو یا اڈوانی، اس سے عام آدمی کو کسی معالطے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔آج سے ۲۰؍ سال قبل اڈوانی بھی مودی کی طرح ہی فائر برانڈ لیڈر تھے جو تشدد اور تعصب کی سیاست پر یقین رکھتے تھے، اس لیے اس قسم کے تنازعوں اور مودی بنام اڈوانی جنگ سے کسی سادہ لوحی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اس ملک کے لیے جتنے خطرناک مودی ہیں، اس سے کم اڈوانی بالکل بھی نہیں۔ نہ تو لوہ پروش اڈوانی اس کثیر قومی اور کثیر ثقافتی ملک کے مفاد میں ہیں اور نہ ہی نفرت کی سیاست میں یقین رکھنے والے وکاس پرش نریندر مودی۔
ABRAR AHMAD
ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL
JNU NEW DELHI 110067
MOB:9910509702