Thursday, 3 October 2013

ادب اطفال: عصری حسیت سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت

ادب اطفال: عصری حسیت سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت
ابرار احمد اجراوی*

بچے کسی بھی قوم اور معاشرے کی ہمہ جہت ترقی میں شاہ کلید تصور کیے جا تے ہیں۔ ایک صحت مند اور صالح انسانی سماج کی تعمیرمیں بچے خشت اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج کے یہ ننھے منے بچے ہی اپنے بے شعوری کے ایام سے صحت منداور صاف ستھرا فکری اور علمی سرمایہ لے کر شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد، قوم و ملت کے لیے حال کی اصلاح و درستگی اور مستقبل کی تعمیر و ترقی میں ایک ذمے دار شہری کی طرح اپنا تعاون دیتے ہیں۔ بشر طیکہ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہنی اور فکری پرورش و پر داخت پر ایام طفولت سے ہی گہری نظر رکھی جائے۔ اور ان کی ذہنی سطح کا خیال رکھتے ہوئے ، ان کو ایسا ادبی مواد فراہم کرا یا جائے جو ان کی مستقبل کیِشخصیت، ان کی افتاد طبع اور ان کے اخلاق و کر دار پر مثبت اثر ڈال سکے۔ یہی سبب ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں خاص طور سے یوروپی ممالک میں بچوں کی ذہنی اور فکری نشو و نما کو خاص طور سے مرکز نظر میں رکھا جا تا ہے اور اس عظیم کام کے لیے بر سر اقتدارحکومتیں معقول بجٹ مختص کیا کر تی ہیں۔ لیکن اس کو ایک المیہ ہی کہا جا ئے گا کہ اردو میں ادب اطفال کے تعلق سے بے توجہی اور بے اعتنائی ہر دور میں عام رہی ہے۔ آج کل شاعروں اور ادیبوں کی یہ لا پروائی ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے، جو کسی بھی زاویے سے قوم و ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ہمارے یہاں لڑکپن کی عمر کو بیکاری کا دور فرض کر لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک اس شعبے میں سرکاری یا نجی طور پر منظم اور مربوط انداز میں کوئی ایسا منثور یا منظوم کام نہیں ہو سکا ہے، جس پر والدین اور اساتذہ کلیتا اعتماد کر سکیں۔پہلے ترقی کی چکا چوند سے ہمارا معاشرہ آشنا نہیں تھا۔ آج ہر گھر میں ترقی کی برقی لہریں دوڑ رہی ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں جس میں ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ کی سہولت میسر نہ ہو۔ ایسی صورت میںبچوں کی ذہنی ترجیحات اور بھی بہت کچھ ہم سے تقاضا کر تی ہیں۔ ہمارے ادیبوں اور دانش وروں اور قومی وملی رہ نماؤں کو ان تمام پہلؤوں پر از سر نو غور کرنے اور پھر ان کی روشنی میں مستقبل کے منصوبے تیار کر نے کی ضرورت ہے۔ ورنہ قوم و وطن کی ترقی دیوانے کا خواب بن کر رہ جا ئے گا۔ علامہ اقبال نے کئی مواقع پر بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلا تے ہوئے کہا تھا: ’’ اگر بچوں کی تربیت میں خامی رہ جا ئے تو تعمیر قوم ووطن کی بنیاد میںخامی رہ جا ئے گی۔ ‘‘
اردو زبان میں ادب اطفال پر ابتدا سے ہی نثر و نظم کے اکا دکانمونے ملنے شروع ہو جا تے ہیں۔ لیکن ایک مستقل اور علاحدہ ادبی صنف کے طور پر اس کا چلن بہت بعد میں جاکر ہوا۔امیر خسرو کی خالق باری ، میر کی چند نظموںاور غالب کی قادر نامہ کو اس سلسلے میں اولیت کا شرف حاصل ہے۔ ان کتابوں میں اخلاق و کردار کی درستگی، حسن معاشرت اور ہم دردی و انسان نوازی کے اصولوں کوبرتنے پر زور دیا گیا ہے۔ مغلیہ عہد حکومت میں سرکاری زبان کے منصب پر فارسی بلا شرکت غیرے قابض و متصرف رہی ہے۔ اس دور میں فارسی ادبیات ہی بچوں کی درسی کتا بوں میں شامل ہو تی تھیں۔ جو کتابیں موجود تھیں ان میں بھی بچوں کی ذہنی سطح اور ان کی طفلانہ تر جیحات و ضروریات کا پہلو سرے سے نا پید تھا۔ مغلیہ حکومت کی بساط الٹ جا نے کے بعد جب انگریزوں کا اثر و رسوخ ملک پر بڑھنے لگا ، تو انھوں نے اپنی تہذیب و تمدن کا دائرہ اثر وسیع کر نے کے لیے اردو کا ہی سہارا لیا، فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج کا قیام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، لیکن ان کا مقصد چوں کہ صرف اپنے غلبہ واقتدار کی سر حدوں کی توسیع اور اس کو استحکام بخشنا تھا، اس لیے انھوں نے بھی دانستہ طور پر ادب اطفال کو اپنے ایجنڈے سے باہر ہی رکھا۔ انگریزوں کے قائم کردہ فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج میں اس شعبے کا ذکر ہی نہ تھا۔ حد تو یہ ہے کہ مصلح قوم سر سید اور ان کے رفقائے کار بھی دوسرے اہم منصوبوں کی تشکیل اور تنفیذ میں لگے رہے۔ البتہ انجمن پنجاب میں کر نل ہالرائڈ کی سربراہی میں ہندوستان کی مشترکہ روایات کاترجمان اور گنگا جمنی تہذیب کا آئینہ دار، جو ادب میں وجود میں آیا اس میں کسی نہ کسی طور بچوں کے ادب کو جگہ دی گئی تھی۔ اس عہد میں مو لانا محمد حسین آزاد ، خواجہ الطاف حسین حالی ، علامہ اقبال ، علامہ شبلی ، برج نارائن چکبست ، تلوک چند محروم ، منشی پیارے لال آشوب، اسماعیل میرٹھی وغیرہ ایسے نابغہ روزگار ادیبوں نے اس طرف توجہ دی ، لیکن سوئے اتفاق کہ اس آغاز کو وہ لوگ مستقل روا ج نہ دے سکے۔ ان میں سے اکثر کتابیں درسیات تک محدود تھیں، جن کی طباعت و اشاعت کا بڑا مقصد تجارتی ہو تا ہے۔ درسی کتابوں کے پائیدار اور طویل المیعاد اثر سے انکار ممکن نہیں لیکن ان کتابوں کا استعمال وقتی ضرورت تک محدود رہتا ہے۔ ایک مرتبہ پڑھنے کے بعد دوسری بار ان کو ہاتھ لگانا بچوں کے لیے ذرا مشکل ہوتا ہے۔ قصے کہانیاں، ڈرامے اورلطیفے وغیرہ بچوں کی ذہنی تفریح کے ساتھ انھیں زندگی کی منزلوں پر کامیابی کے ساتھ بڑھنے کا ہنر بھی سکھاتے ہیں۔ بچے اس قسم کی کتابوں کو بار بار پڑھتے اور ہر بار ایک نئی لذت سے ہم کنار ہو تے ہیں۔
اردو میں ادب اطفال کو بیسویں صدی میںخوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ کچھ اور اچھے لکھنے والے اس مہم کا حصہ بنے ۔ مائل خیر آبادی، شفیع الدین نیر، منشی پریم چند ، ڈاکٹر ذاکر حسین، خواجہ حسن نظامی، کرشن چندر اور صالحہ عابد حسین جیسے ادیبوں کا نام لیے بغیر ادب اطفال کی تاریخ ادھوری رہے گی۔اس فہرست میں بہت سے اور ناموں کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، لیکن نام شماری میرا مطمح نظر نہیں ۔ غور کر نے کا مقام ہے کہ اپنے وقت کے اتنے بڑے ادیبوں نے ادب اطفال تخلیق کر نے میں کسی جانب داری یا کسی ذہنی تحفظ کا مظاہرہ نہیں کیا ، نہ وہ ایسا کرتے ہوئے کسی احساس کمتری یا کسر نفسی کے مرض کا شکا ر ہوئے، لیکن آج کل کے ادیبوں کے لیے ادب اطفال تخلیق کر نے سے شاید ان کے عزت نفس مجروح ہو تی ہے۔ اسی لیے وہ اس کو اپنی حیثیت عرفی کے کے متصادم اور اپنے ادیبانہ مقام و مرتبے سے فرو تر سمجھتے ہوئے، بچوں کے لیے کچھ بھی لکھنے سے جی چراتے ہیں۔ اگر وہ کچھ لکھتے بھی ہیں تو اس میں بچوں کی نفسیات اور ان کے شعور و ادراک کی سطح کا خیال ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ معاصر تخلیق کاروں کواپنے پیش رووں سے سبق لیتے ہوئے اپنی قلمی صلاحیتوں کا رخ اس طرف بھی موڑنا چاہیے، ورنہ آج کی نئی نسل جب جوانی اور شعور کی منزل پر قدم رکھے گی تو انھیں اس نا انصافی کے لیے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ علامہ اقبال جہاں اپنے فکر و فلسفے کی ندرت کاری کے سبب بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں وہیں ان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کے اعلی نمونوں سے بچوں کی نفسیات کو بھی محروم نہیں رکھا ہے۔ انھوں نے ایک درجن سے زائد نظمیں بچوں کے لیے کہی ہیں، جو اردو ادب کے ذخیرے کالافانی سرمایہ تصور کی جاتی ہیں۔شفیع الدین نیر تو صرف اس وجہ سے ادبی افق پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے کہ انھوں نے اپنی تمام تر فنی صلاحیتوں کو بچوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔
اگر بچوں کے لیے جزوی طور قائم مکتبوں اور اداروںکی بات کی جائے تو بہت سے مکتبوں نے اس عنوان سے شہرت و ناموری کی منزل طے کی ہے۔ اور مالی منفعت کے میدان میں بھی وہ کسی محرومی کا شکار نہیں رہے ہیں۔دارالاشاعت پنجاب، مکتبہ حمایت الاسلام اور فیروز سنز لاہور، انڈین پریس الہ آباد، نسیم بک ڈپو لکھنو، مکتبہ الحسنات رام پور، الجمعیۃبک ڈپو دہلی ، ایجو کیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، مکتبہ جامعہ ، اردو اکادمی اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان وغیرہ قومی اداروں نے اس سمت میں پہل کر کے اچھا خاصا ذخیرہ بچوں کے لیے شائع کیا ہے۔ لیکن کیا یہ صورت حال آج بھی بر قرار ہے۔ اس کا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ آج کل کے ناشر حضرات پر مال و زر کی بے لگام ہوس اور زیادہ سے زیادہ منفعت اندوز ی کا بھوت اتنا شدت سے سوار ہے کہ وہ ایسی کتابوں پر اپنا سرمایہ لگانے کو تیار نہیں جن سے منافع کی امید کم ہو۔ یا جن کتابوں کی فروخت کم ہونے کی توقع ہو۔ نجی ادارے کی بات تو چھوڑ دیجیے سرکاری ادارے بھی صرف تجارتی مقاصدکو پیش نظر رکھ کر منافع بخش کتابیں ہی شائع کر تے ہیں۔ اردو اکامی دہلی اور اردو کے فروغ کے لیے قائم کی گئی دوسری ریاستی اکادمیوں کو اس سمت میں پہل کر نے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے لیے کوئی ماہ نامہ چھاپ کر ، یا ان کے لیے سال میں قصے کہانیوں کی دوچار کتابیں شائع کر کے اس عظیم فریضے سے سبک دوش نہیں ہو سکتے۔
دوسری علاقائی زبانوں کی بہ نسبت اردو میں بچوں کے لیے جرائد و رسائل کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پہلے جب کہ رسل ورسائل کی سہولت اتنی فراوانی سے میسر نہیں تھی۔ ملک کے اطراف سے بچوں کے لیے سینکڑوں معیاری رسائل شائع ہوتے تھے۔ بچوںکا اخبار، پھول، پیام تعلیم، کھلونا، غنچہ، نونہال، کلیاں، چمن، چاند، گلشن، بچپن وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں، جوبچوں کو مختلف اور متنوع طریقوں سے علمی اور ادبی تفریح کا سامان فراہم کر تے تھے۔ ان میں ایسے قصے اور کہانیاں اور تاریخی واقعات ہو تے تھے جو اپنے اثر آفریں اور دل چسپ اسلوب نگارش میں طلبہ کو خود آموزی پر بھی آمادہ کر تے تھے۔ اب یہ سارے رسائل ماضی کی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ صرف چند رسائل ہی آج پابندی کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ پیام تعلیم، امنگ، الحسنات وغیرہ آج کل بک اسٹال پر نظر آجاتے ہیں۔ لیکن یہ سارے رسائل بھی وسائل کی قلت اور افراد کار کی لا پروائی کے سبب جاں کنی کے عالم میں ہیں۔ ان کی تعداد اشاعت روز بروز زوال کی طرف گامزن ہے۔ اگر مناسب لکھنے والے قلم کار ان رسالوں کو میسر نہیں ہیں ، تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رسالے کے ذمے دار حضرات مضمون نگاروں کو معقول معاوضہ نہیں دیتے۔ صرف اردو اکادمی کے رسالے امنگ کا استثنا ہے جو مضمون نگاروں کو ان کی قلمی محنت کے اعتراف میںقلیل معاوضہ فراہم کرتا ہے۔ معاوضوںکے حوالے سے اردو پروگرام نشر کرنے والے ٹیلی ویژن چینلز، ریڈیو اور دوسرے رسالوں کا بھی برا حال ہے ۔ادب اطفال تخلیق کر نے میں جہاں کو تاہی کی اور بہت سی وجوہات ہیں وہیں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگ لازمی تعلیمی اصول ونکات، بچوں کی بنیادی نفسیات اور ان کے شعور و آگہی کی سطحوں سے بھرپور واقفیت نہیں رکھتے۔ نتیجتا بچوں کے جذبات اوران کی خواہشات کی تسکین کا سامان بہم پہنچانے والے عناصر ادبی مواد سے غائب ہو جاتے ہیں۔ ادب اطفال تخلیق کرنا بڑوں کے لیے لکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ ماضی میں جتنے ادیبوں نے ادب اطفال کے میدان میں ملک گیر شہرت حاصل کی ہے ان میں سے اکثر کسی تعلیمی ادارے سے باضابطہ وابستہ تھے۔ اور ان کے لیے ادب تخلیق کر تے وقت اپنے وسیع علم و مطالعہ اور تجربے کی بنیاد پربچوں کے فطری مطالبات ، ان کی مبتدیانہ سوچ اور ان کی ذہنی ترجیحات کو سامنے رکھتے تھے۔ آج کل کے جتنے بھی ادیب ادب اطفال تخلیق کر رہے ہیں وہ اس کو بچوں کے وسیع تر مفاد کے تناظر میں با معنی عمل بنانے کے بجائے صرف اپنی تخلیقی قوت کے اظہار تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
بچوں کے لیے اگر شعری ادب خلق کیا جائے تو اس میں نغمگی اور موسیقیت کا عنصر حاوی ہو نا چاہیے، تاکہ موزوں طبع اورموسیقیت پسند بچے اس سے استفادہ میں کسی قسم کی بد مزگی کا شکار نہ ہوں۔ اگر نثری ادب تخلیق کیا جائے تو آسان اور دلچسپ زبان کے ساتھ اس میں بنیادی کر دار ایسا ہو، جو بچوں کوانسانیت ، بہادری و بیباکی، قوم و ملک کی ترقی کی منصوبہ بندی اور ہم دردی و انسان نوازی جیسے آدرشوں کو اپنانے پر آمادہ کرسکیں۔
آج کا زمانہ ماقبل کے زمانے سے کئی اعتبار سے مختلف ہے، آج کی پسند کا خیال کر تے ہوئے رنگین تصویروں سے مزین کتابیں شائع کی جائیں، تا کہ بچوں کی بصری حس بھی محظوظ ہو سکے۔ کتابت و طباعت اور کاغذ بھی اعلی اور معیاری ہو نا چاہیے تا کہ بچوں کے بصری ذوق کو صحیح غذا میسر آسکے۔ اگر کتابت اچھی ہوگی تو بچوں کے اندر خوش خطی کا رجحان بھی پر وان چڑھے گا۔ کتابوں کی قیمت آسمان کو چھوتی ہوئی نظر نہ آئیں ۔ قیمتیں مناسب ہوں تاکہ غریب فیملی کے بچے بھی کتابیں خرید کر پڑھ سکیں۔ اردو کے ناشرین کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وسائل اور سرمایہ کی قلت کے سبب وہ اپنی مطبوعات کی تشہیر پر مطلوبہ توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے کتابیں عام قارئین کی دسترس سے باہر رہتی ہیں۔ سائنسی ترقیات نے دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کر دیاہے، پوری دنیا سائنسی علوم کی حیران کن ایجادات سے انگشت بدنداں ہے، اب بچوں کv پنچ تنتر کی جانوروں اور پریوں والی افسانوی کہانیوں اور الف لیلی کے جادوئی قصوں میں وہ تفریحی غذا نہیں ملتی، جو حقیقت اور سچائی پر مبنی کسی سائنسی کارنامے کو پڑھ کر ملتی ہے، اس لیے سائنسی مضامین کو بھی ادبی پیرایہ بیان اور سیدھے سادے اسلوب میں شائع کیا جائے تاکہ بچوں کا ذہنی تجسس صحیح رخ پر پر وان چڑ ھ سکے۔ اردو زبان میں سائنسی معلومات پر مشتمل کتابوں کی کمی ہم سب کے لیے باعث فکر ہے۔ اس طرح کی کتابیں معقول معاوضہ دے کر ماہرین فن سے لکھوائی جا سکتی ہیں۔ تاکہ وہ فکر معاش اور روزی روٹی کے جھمیلوںسے آزاد ہو کر تن دہی کے ساتھ اس اہم کام کو انجام دے سکیں۔ صرف نصابی کتابو ںکی اشاعت پر سرمایہ نہ لگا یا جائے اس سے الگ ہٹ کر ایسا مواد بھی شائع کیا جائے، جو بچوں کی شخصیت سازی کے لیے مؤثر اور کار آمد ہو نے کے ساتھ ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہو۔
*ABRAR AHMAD
ROOM NO,21/LOHIT HOSTEL
JAWAHARLAL NEHRU UNIVERSITY
NEW DELHI.110067
m: 9910509702

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ :۱۹۱۲ء سے ۲۰۱۲ء تک

مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ :۱۹۱۲ء سے ۲۰۱۲ء ت

(موجودہ پرنسپل مولانا محمد قاسم کی خدمات کے خصوصی حوالے سے)

یونان ومصرو روما سب مٹ گئے جہاں سے
باقی مگر ہے اب تک نام  ونشاں ہمارا
ابرار احمد اجراوی
جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی
موبائل:9910509702
Email:abrarahmadijravi@gmail.com 
دریائے گنگا کے دائیں کنارے آبادپٹنہ صرف ایک شہر ہی نہیں، علم و ادب اور تہذیب و تمدن کا حسین استعارہ بھی ہے۔ اس شہر کے چپے چپے پر تاریخی عظمتوں کے نقوش کندہ ہیں۔ یہاں دریا ئے گنگا کی لہروں کے متوازی علم و ادب، شریعت و طریقت اور معرفت و سلوک کی نہر بھی رواں دواں ہے۔ملک کی قدیم اسلامی تنظیم امارت شرعیہ اور تصوف وسلوک کا مرکزخانقاہ مجیبیہ پٹنہ کی گود میں واقع ہیں۔بدھ مت کے بانی مہایر گوتم بدھ کو اسی سرزمین کے ایک خطے گیا میں، پیپل کے درخت کی چھاؤں میں باطن کا عرفان حاصل ہوا تھا۔ سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ نے اسی زمین پر آنکھیں کھولیں۔پٹنہ کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے، ذہن کی اسکرین پر علم و ادب سے عبارت ایک عظیم شہر کی تصویر گردش کرنے لگتی ہے۔مولانا ابو المحاسن سجاد، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، شاد عظیم آبادی اور علامہ جمیل مظہری کی یہ سرزمین کبھی علم و عمل کے پارکھوں سے محروم نہیں رہی۔ یہاں صرف علم و ادب کا مرکزخدا بخش لائبریری ہی نہیں، پٹنہ یونی ورسٹی اور سیاسی تحریکات کا منبع گاندھی میدان ہی نہیں، بلکہ علوم و معارف کا گہوارہ اور مجاہدین آزادی کا مسکن متحدہ بہار کا قدیم ترین اسلامی ادارہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ بھی ہے۔
تاریخی کتابوں کی گرد جھاڑیے اور ذرا مدرسے کی تعلیمی روداد پر اچٹتی نگاہ ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی پٹنہ نے جہالت وناخواندگی کے ظلمت کدوں کو علم کی روشنی سے منور کیا ہے، اپنے اطراف واکناف میں علم و ادب کی روشنی پھیلائی ہے اور تعلیمی ومعاشی اعتبار سے ملک کی پسماندہ ترین ریاست بہار کو تعلیم ومعاش کے میدان میں آگے بڑھانے میں انتہائی نمایاں رول ادا کیا ہے۔ علم و ادب ، تاریخ و ثقافت اور تعلیم و سیاست کا وہ کون سا شعبہ ہے، جہاں مدرسہ شمس الہدی پٹنہ سے اکتساب فیض کرنے والے افراد موجود نہیں ہیں۔ یہاں کے فارغین نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعدصرف مسند درس و تدریس اور منبر و محراب کو ہی زینت نہیں بخشی، بلکہ عصری علوم کے شعبوں میں بھی اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔علماء، شعرا، خطباء، اطباء کی ایک طویل فہرست ہے، جنھوں نے اس سر چشمۂ علم وفن سے اپنی علمی تشنہ کامی دور کی ہے۔ یہاں کے فصلاء مختلف شعبوں کے صدور اورفیکلٹی کے ڈین بھی بنائے گئے ہیں۔ وہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔ وہ آئی ایس اور آئی پی ایس جیسے ملک کے اعلی ترین عہدوں کو بھی زینت بخش چکے ہیں۔ یہاں کے فضلاء نے مدارس و مکاتب، اسکول اور کالجز اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کے اعلی مناصب پر فائز رہ کر قوم و ملت کی رہبری کا فرض انجام دیا ہے۔ ڈائریکٹر ادارہ تحقیقات عربی وفارسی پٹنہ مولانا حسن رضا خاں صاحب،آئی پی ایس اظہار عالم صاحب، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے پروفیسر محمد عزیز شمسی، مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر شمس الضحی صاحب، متھلا یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر عبد المغنی اور قومی  اردوکونسل نئی دہلی کے موجودہ ڈائریکٹراور جے این یو کے استاذ خواجہ محمد اکرام الدین اسی چمنستان شمس الہدی کے گل سرسبد ہیں۔ اتنی متنوع خدمات کے پس پردہ بانی مدرسہ جسٹس نور الہدی کا وہ خلوص پوشیدہ ہے، جس کا مظاہرہ انھوں نے آج سے سو سال قبل اس وقت کیا تھا جب انھوں نے علاقے میں پھیلی جہالت اور بد دینی کو دیکھ کر اپنے والدمحترم مولوی شمس الہدی کی یادگار کے طور پر بنام خدا اس مدرسے کی داغ بیل ڈا لی تھی۔ بانی محترم کے خلوص کا ہی اثر ہے کہ اس مدرسے نے اپنی زندگی کے سو سال کامیابی کے ساتھ پورے کرلیے ہیں۔ اگر بانی مرحوم کے سچے جذبے کی آنچ اس مدرسے کی بنیاد میں شامل نہ ہوتی، تو شاید آج یہ ادارہ شہرت اور ناموری کی اس منزل پر نہ کھڑا ہو تا جہاں یہ آج کھڑا ہے۔ اس دور زوال میں سو سال کا کامیاب سفر انھی اداروں کا نصیبہ ہوا کرتا ہے، جن کی بنیاد میں خدا کے برگزیدہ اور محبوب بندوں کا خون شامل ہوتا ہے۔
جسٹس نورالہدی مرحوم مدرسے کی تعلیمی اور تعمیری ترقی کے لیے ہمیشہ فکر مند رہا کرتے تھے ، انھیں مدرسے کی بقا اور ترقی کی فکر کھائے جاتی تھی اور انھیں یہ خدشہ دامن گیر تھا کہ کہیں میری وفات کے بعد دوسرے موقوفہ اداروں کی طرح یہ مدرسہ بھی غیروں کی ستم رانی اور اپنوں کی ’کرم فرمائی ‘کے سبب موت اور بربادی کی آعوش میں نہ چلا جائے، اس لیے انھوں نے ہمت و حوصلے سے کام لیتے ہوئے۱۹۱۹ء کو اس مدرسے کو حکومت کی تحویل میں دے دیا۔ لیکن سرکار کی تحویل میں جانے والے دوسرے اداروں کی طرح اس پر زوال نہیں آیا، بلکہ آج تک اپنے پرنسپلزاور اساتذہ کی شبانہ روزمحنت کے نتیجے میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
مدرسہ شمس الہدی کے فضلاء اور فیض یافتگان نے جہاں اس مدرسے کو ترقی کی معراج تک پہنچانے میں اپنا خون جگر جلایا ہے، وہیں اس کو ترقی کے بام عروج تک پہنچانے اور اس ذرے کوآفتاب بنانے میں مدرسے کے فعال اور متحرک پرنسپلز کا بھی کلیدی رول رہا ہے۔ ۱۹۲۰ء میں جب سے یہ مدرسہ حکومت کی تحویل میںگیا ہے، اب تک اس کے ۱۸؍ پرنسپلز مقرر ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے نامور عالم دین مولانا سہول احمد صاحب بھاگل پوری مدرسہ شمس الہدی کے باضابطہ پرنسپل مقرر ہوئے، جن کی مدت کار تقریبا پندرہ سال کے عرصے پر محیط ہے،اس کے بعدبالترتیب مولانا اصغر حسین صاحب، مولانا معین الدین صاحب، مولانا ظفرالدین صاحب، مولانا دیانت حسین صاحب، مولانا ریاست علی ندوی صاحب، مولانا سید شاہ ابو القاسم صاحب، مولانا حفیظ الرحمان صاحب، مولانا سید محمد قاسم صاحب،مولانا سید محمد صدر الحق صاحب، مولانا عبد القیوم صاحب اور مولانا ابو الکلام صاحب قاسمی صاحب اس کی پرنسپل شپ پر فائز رہ چکے ہیں۔
اس وقت عظیم اسلامی درس گاہ دارالعلوم دیوبند کے چشم و چراغ،  جید عالم دین، مشہور مقرر اور جمعیۃ علماء ہند بہار کے صدر نشیں عالمی شہرت کے حامل مولانا محمدقاسم صاحب مدرسے کے پرنسپل ہیں، جنھوں نے ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو اس عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد، ایک سال کے ہی قلیل عرصے میں مدرسہ شمس الہدی کو شہرت و ناموری کی اس منزل پر پہنچا دیا ہے، جہاں تک پہنچنے کے لیے ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ اس کومولانا کی عند اللہ مقبولیت اور اقبال مندی ہی سے تعبیر کیا جائے گا کہ صد سالہ جشن شمس الہدی ان کی قابل رشک پرنسپل شپ میں منعقد ہو رہا ہے، جو نہ صرف ریاست بہار کے لیے فخر و مباہات کی بات ہے، بلکہ ہمارے وطن ہندستان کے لیے بالعموم اور پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے بالخصوص فخر و سعادت کا لمحہ ہے۔ پرنسپل موصوف نے صرف یہی نہیں کہ اس عظیم الشان تاریخ ساز اور باوقار تقریب کے انعقاد کے لیے شہر شہر اور قریہ قریہ وفود بھیج کر، فرزندان توحید کی ذہن سازی کی، بلکہ حکومت کی مشنیری کو بھی اس طرف متوجہ کیا کہ حکومت وقت کے لیے مدارس اسلامیہ اور ریاست بہار کے لیے تمغۂ امتیاز شمس الہدی پٹنہ کے کارناموں اور ملک کی آزادی میں آزادی کی راہوں پر سنت منصور و قیس کو زندہ کرنے والے اس کے فرزندوں کی جستجوئے شہادت سے انحراف کرنا اس کے حق میں نہیں ہوگا۔
مولانا قاسم صاحب نے اپنی پرنسپل شپ میں مدرسہ شمس الہدی کی تصویر اور تقدیر دونوں بدل کررکھ دی ہے۔ انھوں نے شمس الہدی پٹنہ کو دستور و آئین کی روشنی میں ملنے والے حقوق کے حصول کے لیے، حکومت وقت کا در کھٹکھٹا یا ہے، حکومتی مشنیری کو مدارس کے وجود اور ملک کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے میں ان کے کردار کا احساس کرایا ہے اور مدرسہ شمس الہدی کا حق واجب مانگ کر مدرسے کے احاطے میں جتنے تعمیری اور تعلیمی ترقیاتی کام کرارہے ہیں، وہ یقینا مدارس اسلامیہ کی تاریخ میں زریں حروف سے لکھا جائے گا۔ مولانا چہرے بشرے اور ظاہر و باطن سے انتہائی شریف اور دین دار اور بڑے کج کلاہ واقع ہوئے ہیں کہ انھوں نے ہجوم دہر میں بھی اپنی وضع نہیں بدلی ہے، لیکن ان کی بزرگی اور ان کا تدین و تقوی اور طہارت وپاکیزگی ان کے سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں دوڑ دھوپ کے لیے کبھی مانع نہیں ہوا کہ جب دین سیاست سے جدا ہوجائے توپھر وہ دین باقی نہیں رہتا،  چنگیزیت میں تبدیل ہوجاتا ہے، یوں بھی مذہب اسلام نے دین اور دنیا میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی ہے، دونوں ایک دوسرے کے لیے تکملہ اور تتمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مولانا علمی استعداد اور تدریسی صلاحیت سے مسلح ہونے کے ساتھ میدان خطابت کے بھی شہسوار ہیں۔ انھوں نے شعلہ بیانی اور مزاج کی برق فشانی سے نہیں، بلکہ اپنی سبک خرام شیریں بیانی سے بہت سے منحرف اذہان کو اسلامی تعلیمات کا گرویدہ بنایا ہے کہ اگر تجربے اور مصلحت سے کام لیا جائے، تو پھول کی پتی سے بھی ہیرے کے جگر کو چاک کیا جاسکتا ہے۔ ہندستان اور خاص طور سے ریاست بہار کا کون ایسا شخص ہوگا، جو ان کے زور خطابت کا قائل نہیں ہے۔  وہ صرف پٹنہ ہی میں نہیں، بلکہ قر ب وجوار کے دوسرے اصلاع میں بھی اپنے تعلیمی و اصلاحی خطابات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ ۱۹۸۶ء سے شہر پٹنہ میں عیدین کے امام بھی ہیں، اور پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں عیدین کے موقع پرلاکھوں فرزندان توحید کے مجمع سے ان کا جو عالمانہ اور مدبرانہ خطاب ہوتا ہے، اس میں صرف امت مسلمہ کی دینی اور دنیاوی ترقی کا راز ہی پوشیدہ نہیں ہوتا، بلکہ حکومتی مشنیری بھی بلا تفریق مدہب و ملت ان کے مشوروں سے پھوٹنے والی کرنوں سے روشنی کشید کرتی ہے اور انھی مشوروں کی روشنی میں مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کرتی ہے۔
مولانا نے سستے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بزم سیاست تو نہیں سجائی ، لیکن سیاست کے اسرار و رموز اور حالات کے مدو جزرپر ان کی نظر اتنی گہری ہے کہ میدان سیاست کے ماہرین ان سے باہمی مشاورت اور تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ وہ حکومت کے وزیر اور کسی سیاسی پارٹی کے باضابطہ ممبر نہیں، لیکن حکومت وقت بہر حال ان کے تفکر و تدبر کا لوہا مانتی ہے۔ مدرسہ شمس الہدی کے احاطے میں ۱۲۴؍ بیڈ پر مشتمل شمس الہدی ہاسٹل کی تعمیر مولانا کے اسی سیاسی اثر و رسوخ کا ثبوت ہے۔ انھوں نے جشن صد سالہ میں جس طرح ادارے کے ابنائے قدیم کے شانہ بشانہ، ملک کے مشاہیر علماء، ممتاز صحافیوں، منتخب دانشوروں اور سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکیا ہے، وہ ان کی سیاسی بصیرت، قائدانہ فراست اور جمہوریت پسندی کا نتیجہ ہے۔ مولانا اسلام پسند ہونے کے ساتھ،  جمہوری اور سیکولر ذہن کے مالک بھی ہیں،وہ مذہبی رواداری، کثرت میں وحدت اور پر امن بقائے باہم کے اصول پر ایمان رکھتے ہیں، وہ سر سید کی طرح ہندو اور مسلم دونوں کو اس ملک کی دو آنکھیں تصور کرتے ہیں،  وہ تعمیری اور تحریکی ذہن رکھتے ہیں اسی لیے مسلکی اور گروہی تعصب سے دور رہتے ہیںکہ اس وقت مسلکی اور گروہی تعصب ملک و قوم کے لیے انتہائی ضرر رساں ہے، قوم کو اس وقت تعمیری اور اتحادی خطوط پر سوچنے والے رہبر کی صرورت ہے، مولانا نہ صرف یہ کہ تعمیر وترقی اور اتحاد واتفاق میں حد درجہ یقین رکھتے ہیں، بلکہ ملک کے تمام گروہوں کو اتحاد و اتفاق کی لڑی میں پرونا بھی چاہتے ہیں۔وہ اتحاد بین المسلمین کے علم بردار رہے ہیں، مولانا نے اپنے دہن رسا سے اس نکتے کو دریافت کرلیا ہے کہ ایک کثیر قومی، کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک میں گروہی اختلافات کسی بھی طرح مفید نہیں ہے۔اس لیے وہ اپنی تحریروں اور تقریروں کے دریعے ’بتان رنگ و بو کو توڑکر ملت میں گم ہوجانے‘ کی پر زور صدا لگاتے رہتے ہیں۔شاید مولانا کے پیش نظر معمار دارالعلوم دیوبندقاسم العلوم والخیرات مولانا محمدقاسم نانوتوی کا یہ قول رہتا ہے کہ:
’’ فی زماننا کفار کا غلبہ ہے۔ وقت نہیں ہے کہ مسلمانوں میں تفریق کو ہوا دی جائے، جس سے ان کا کلمہ متفرق ہوکر مزید ضعف پیدا ہو، بلکہ توڑنے کے بجائے جوڑنے کی فکر کی جائے۔‘‘(سوانح قاسمی، ج:۱، ص:۴۸۰)
شمس الہدی کے جشن صد سالہ کے موقع پر ایک ہی اسٹیج پر مسٹر اور ملا کو ایک کرنے کی حکمت عملی مولانا کی دور رسی اور امت مسلمہ کو کلمۂ لاالہ الا اللہ کی بنیاد پرمتحد رکھنے کی ہی ایک کوشش ہے۔ اتنے بڑے اجتماع کے انعقاد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مولانا کے اندر قیادت و سیادت کے ساتھ یقین محکم اور عمل پیہم کا جذبہ موجود ہے، جو کسی بھی شخص کے لیے جہاد زندگانی میں کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ مولانا قاسم صاحب اپنے جہد و عمل کی دنیا بسانا جانتے ہیں،وہ صرف گفتار کے نہیں، بلکہ کردار کے غازی ہیں، ان کا دہن سکہ بند نہیں ہے،  وہ دوسروں کے چھوڑے ہوے نوالوں کو منھ نہیں لگاتے، نہ دوسروں کی اندھی تقلید کے روا دار ہیں، انھوں نے علامہ اقبال کے اس شعر کی سریت کی ڈور اپنے ہاتھوں میں تھام رکھی ہے کہ:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
مولانا قاسم صاحب نے مدرسہ شمس الہدی اور ملت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی اور اس کے مستقبل کے منصوبوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے جو تگ و تاز اور انتھک جدو جہد کی ہے، وہ ان کے خلوص ومحبت اور سوزو ساز کا مظہر ہے۔ وہ سب کچھ اس طرح بے نفسی کے عالم میں انجام دیتے ہیں کہ نہ حکومت سے ستائش کی تمناپالتے ہیں اور نہ یاران با وفا سے کسی صلے کی امید باندھتے ہیں۔ مولانا کی امیدیں تو قلیل ہیں،لیکن ان کے مقاصد کی دنیا بڑی وسیع ہے۔ وہ رزم وبزم دونوں جگہ سبک خرامی کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔ وہ تحرک وفعالیت کا سنگم ہیں اور کسی ادارے کے قائد کے لیے قیادت کی جتنی صفات مطلوب ہوسکتی ہیں، وہ ان کے اندر مجتمع ہیں، شاعر نے صحیح کہا ہے کہ:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
صد سالہ جشن کا انعقاد فخر ومسرت کا لمحہ ضرور ہے کہ کسی ادارے کے لیے سو سال کا سفر معمولی بات نہیں ہوتی، لیکن اس وقت ہمیں اپنی کامیابیوں پر اظہار مسرت کے ساتھ احتساب دات اور دروں بینی کا بھی نمونہ پیش کرنا چاہیے کیوں کہ ہمارے دین کی حقیقت ہی احتساب کائنات سے عبارت ہے۔ اگر احتساب کی صفت نہ ہو تو ہمیں اپنی کمیوں کی تلافی کرنے کا موقع نہیں مل سکتا۔انسان تو خطا اور نسیان کا مرکب ہے۔ اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کر نے کے بعد ہی ہم مستقبل کی راہ پر خار طے کرکے منزل مقصود تک رسائی کی توقع کرسکتے ہیں۔خود احتسابی سے مستقبل کی راہیں روشن ہوتی ہیں، جب کہ حد سے زیادہ خوش فہمی اور تفاخر کا جذبہ تاریکیوں اور ناکامیوں کے در کھول دیتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آزادی کے ۶۵؍ سال بعدبھی ہمارے مسلم علاقوں کا تعلیمی اعتبار سے بہت ہی برا حال ہے؟۔ سچر کمیٹی اوررنگاناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ نے ہماری تعلیمی اور معاشی بد حالی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ آج تعلیم سے زیادہ ہم دو وقت کی روٹی اور معاش کی فکر زیادہ کرنے لگے ہیں۔امت مسلمہ کے بحر کی موجوں میں وہ اضطراب والتہاب کہا ںہے، جو کسی قوم کی ترقی کے لیے مطلوب ہے۔ جسٹس نور الہدی نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے جس احساس سے مجبور ہوکر اس مدرسے کی تعمیر کا بیڑ اٹھایا تھا، کیا آج بھی اس قسم کے حالات سے ہمارا معاشرہ دو چار نہیں ہے؟۔ کیا آج بھی اسی قسم کی بے حسی ہمارے معاشرے پر طاری نہیں ہے؟کیا اس وقت بھی مدرسہ شمس الہدی کی وہی تعلیمی أب وتاب برقرار ہے، جس کا خواب اس کے بانی اور متولی جسٹس نور الہدی نے دیکھا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ شمس الہدی اپنے اساسی اغراض ومقاصد سے دور ہوتا جارہا ہے؟حکومت وقت کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنے کرداروعمل کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اورمسلم اداروں کے تعلق سے اپنے کردار کا جائزہ لینے کی صرورت ہے۔ مدرسہ ایگزامنیشن بورڈ، ملحقہ مدارس،ادارہ تحقیقات عربی وفارسی اور مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونی ورسٹی بھی مدرسہ شمس الہدی کا ہی ایک حصہ ہے۔ کیا حکومت ان اداروں کی بھی ہمہ جہت تعلیمی اور تعمیری ترقی کے لیے کوشاں ہے؟ کیا ہماری حکومت ہندی اور اردو کے ساتھ عربی اور فارسی کو بھی تعلیمی نظام کا حصہ بنانے اور اس کی ترقی کے لیے فکر مند ہے؟ماضی کی کمیوں کے دریچے میں جھانکنے کا یہی احساس ہمیں زندگی کی راہوں پر کچھ کرنے اور امت مسلمہ کو تعلیمی میدان میں آگے برھانے کے لیے مہمیز کرتا رہے گا۔ ہمیں ہمیشہ اس تصور کو سینے سے لگائے رکھنا ہوگا کہ’ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘۔ ’بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ‘ کہاں ہے۔ تعلیمی راہ کے مسافر کے لیے کہیں ٹھہراؤ اور منتہائے سفر نہیں۔مجھے یقین ہے کہ علم و عمل کا یہ کارواں ہمیشہ تازہ دم رہے گا اور تعلیمی راہوں پر رواں دواں رہے گا کیوں کہ مولانا محمد قاسم صاحب میں وہی درد اور وہی احساس موجود ہے، جو اس ادارے کے بانی ا ول کے دروں میں موج زن تھا۔ مولانا محمد قاسم صاحب میں بھی وہی لے اور وہی نے اور وہی رنگ وآہنگ مو جود ہے، جو بانی مرحوم جسٹس نورالہدی مرحوم کی زندگی کا شناخت نامہ تھا۔
امت مسلمہ کی تعلیمی اور سیاسی ترقی کے لیے جتنی لگن اور بے نفسی کے ساتھ مولاناعمر کے اس مرحلے میں بھی دوڑدھوپ کرتے ہیں وہ یقینا ہمارے نو عمرمعاصرین کے لیے قابل رشک اور لائق تقلید ہے۔ چوں کہ رہ تعلیم کے مسافروں کی کوئی حتمی منزل نہیں ہوتی، اس لیے میں ان سے علامہ اقبال کی زبان میں بس یہی استدعاء کرسکتا ہوں کہ:
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

عہد وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں کی رواداری


                                                                                       ابرار احمد اجراوی*
جنت نشاں غیر منقسم ہندوستان کے طول وعرض پر کم و بیش آٹھ سو سال تک کئی مسلم خاندانوں نے حکومت کی ہے اور ہرخاندان سے تعلق رکھنے والے بادشاہ نے ہندستان کے تاج زرنگار اور اس کے تخت طاؤس میں نت نئے گل بوٹوں کا اضافہ کیا ہے۔ چمنستان ہند کی آبیاری اور اس کی ہمہ جہت ترقی اور خوش حالی ان کی حیات مستعار کا شیوہ تھا۔رواداری،وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرنا اور پر امن بقائے باہم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا کو برقراررکھنا ان کی حاکمانہ زندگی کا طرۂ امتیاز تھا۔ان کے حریم حکومت میں ہندو مسلم یا سکھ عیسائی کی کوئی مذہبی یا نسلی تفریق نہیں تھی۔ انھوں نے کثرت میں وحدت سے عبارت یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارہ کے تصور کو فروغ دینے میں کسی طبقاتی یا مدہبی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔عہد وسطی میں مسلم حکمرانوں نے امن و سلامتی اور صلح وآشتی  کے آدرشوں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے،جس شاندار طریقہ سے حکومت کی ہے، وہ ہندوستانی تاریخ کاہی نہیں، عالمی تاریخ کا بھی ایک روشن اور باعث صد افتخار باب ہے،سر زمین ہند سے ان مسلم بادشاہوں کی اٹوٹ محبت کا اندازہ کرنے کے لیے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ وہ یہاں مختلف سماجی، تجارتی اور سیاسی وجوہ کی بناء پرآئے ، لیکن ایک بارقدم رکھنے کے بعد اپنے آبائو اجداد کے مسکن و مدفن اورجان سے زیادہ عزیز اپنی جائے پیدائش کی طرف مڑ کربھی نہیں دیکھا،بلکہ یہاں کی خاک سے اس قدر محبت، دل چسپی اور وابستگی بڑھ گئی کہ وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے ،  ان کے اخلاف اور اولاد واحفاد نے بھی اسی مٹی پر جنم لیا اور یہیں کی خاک کو اپنی آخری آرام گاہ بھی بنایا۔یہ مسلم حکمراں عرب و ترکی اور افغانستان و ایران سے آئے تھے، لیکن کسی نے بھی یہاں عربستان یا ترکمانستان و افغانستان بنانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ وطن عزیز ہندستان کی وحدت اور سالمیت کو ایک جاں باز اور وفادار سپاہی کی طرح تحفظ فراہم کیا۔ اور یہ ملک ہندستان ہی رہا۔انھوں نے اس خطۂ زمین سے اپنے مادر وطن کی طرح پیار کیا۔ انہوں نے جہاں اسلامی تہذیب وثقافت کی جو صحیح معنوں میں انسانیت و شرافت اور اعلی انسانی اقدار سے عبارت تھی،ترویج وترقی اور توسیع وتبلیغ کے عمل کو مذہبی فریضہ کے تحت انجام دیاوہیں رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورخوشگوار برادرانہ تعلقات کا عملی مظاہرہ بھی پیش کیا، انھوں نے آج کے حکمرانوں کی طرح جات پات ،نسلی تفریق اونچ نیچ اور مذہبی خطوط پر نظام حکومت وضع نہیں کیا،بلکہ ان کی حکومت عدل وانصاف، مودت ومحبت ، بھائی چارگی او ر مساوات کی اعلیٰ اور پائیدار بنیادوں پر ہی قائم ہوتی تھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رواداری، بقائے باہم کا عالمی تصور اورخاص طور سے یہاں کے غیر مسلموں کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ برتاؤ ان مسلم حکمرانوں کا طرۂ امتیاز تھا۔ غیر مسلموں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی نگہداشت کے حوالے سے وہ بہت محتاط رہتے تھے۔ فرض شناسی اور عدل گستری ان کی زندگی کا شناخت نامہ تھی۔ ان کے اندروسعت ظرفی اور فراخدلی اس حدتک تھی کہ وہ ان کے مذہبی رسم ورواج اور ان کی خصوصی مذہبی تقاریب میںبھی بصد خوشی شرکت کرنے کے حامی تھے،جن کے طریقۂ کار اسلام مخالف تھے۔ ہندؤں کے تہذیبی اور معاشرتی وجود سے انہیں کسی بھی درجے میں تنفرنہیں تھا۔ وہ مختلف اقوام وملل کا پاس ولحاظ اور ان کے حقوق ومطالبات کاپورا احترام کرتے تھے۔ ان کے عہد حکومت میں شہریوں کے مابین قومی یک جہتی کا تصور بدرجۂ اتم موجود تھا۔ سماجی مساوات اور قانونی ومعاشی انصاف نظامہائے حکومت کی اساس تھا۔
ان تمام تاریخی حقائق کے باوجود المیہ یہ ہے کہ معاصر ہندوستان کے اکثر تاریخ نویس سیاست سے مرعوب اور گردوپیش کے حالات سے متأثر نظر آتے ہیں، انہوںنے چند ذاتی اغراض ومقاصد کے پیش نظراور چند ٹکوں کے حصول کے لیے تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو تسکین دی ہے۔ ان  کی غلط تاریخ نگاری کی وجہ سے ہندوستان کی سچی اور مبنی برحقائق تاریخ جھوٹ اور افتراء پر دازیوں کا آمیز ہ بن کر رہ گئی ہے۔ زیادہ تر یوروپین مؤرخین اور سفید فام انگریزوں نے ’’لڑاؤاور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ہمارے اسلاف اورمسلم حکمرانوں کے معجزاتی اور عدیم المثل کارناموں کو آگ اگلتی تحریروں اور شرارت بھری تقریروں سے کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ اس سے معصوم اذہان بھی پر ا گندہ ہوگئے۔ ان کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچراور تاریخی کتابوں سے جو اثرات مرتب ہوئے اس سے فرقہ واریت کی مزید آبیاری ہوئی۔انھوں نے فرقہ واریت اور ہندو مسلم منافرت کی جو تخم ریزی کی تھی، اسی کی فصل آج کے فاشسٹ اذہان کے لوگ کاٹ رہے ہیںاور فرقہ پرستی کا زہر ہندستان کے جسم نازک میں گھول رہے ہیں۔
برطانوی سامراج نفرت وحقارت اور فرقہ پرستی کا جو بیج بو کر ہندوستان سے گیا تھا وہ آج ایک تنا ور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں کے سرکاری اسکولوں میں ایسی کتابیںداخل نصاب کردی گئیں اورہنوز کی جارہی ہیں جن سے مسلم دور حکومت اور مسلم حکمرانوں کی غلط تصویر کشی ہو تی ہے۔ مسلم حکمرانوں پر یہ الزام عائد کیا گیاہے کہ وہ بت شکن تھے۔ ہندو مخالف تھے۔مندروں کی مسماری اور غیر مسلموں کے عبادت خانوں کا انہدام حکومت کی منظم اور منصوبہ بندسازش تھی۔ وہ جبراً ہندوؤں کو مسلمان بناتے تھے۔غیر مسلموں کو حکومتی مراعات سے محروم رکھتے تھے۔
جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، تاریخی حقائق بتلاتے ہیں کہ مسلم حکمراں بہت ہی روادار، رحم دل اور فراخ دل ہوتے تھے، کسی بھی مسلم بادشاہ کی اسٹیٹ پالیسی یہ نہیں تھی کہ غیر مسلموں کو جبراً مسلمان بنایا جائے اور انھیںتبدیلی مذہب پر مجبور کیا جائے ، مندروں اور بتوں کو توڑ ا جائے ، اس طرح کی ہندو مخالف پالیسی ان سے منسوب کرنا سراسر تاریخی بددیانتی ہے۔
مشہو رمؤرخ خلیق احمد نظامی بجا طور پرلکھتے ہیں: ’’ ہندوؤں کو نہ صرف پوری مذہبی آزادی حاصل تھی بلکہ ان کے رسوم وعقائد ، فلسفہ وافکار کونہایت ہی ہمدردانہ طور پر سمجھنے کی کوشش کی جاتی تھی ، بت پرستی پر طعنہ کے بجائے مسلمان ان کے جذبوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے‘‘۔ (سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات:۷۴) ذیل کی سطروں میں چند مسلم حکم رانوں کا تذکرہ تاریخی حقائق کی روشنی میں کیا جارہاہے۔تاکہ مبالغہ اور بے جا الزامات سے مبرا اور منزہ ان کی صحیح تصویر ابھر کر سامنے آسکے اور فرقہ پرست طاقتوں اور ملک کے فاششسٹ عناصر کو ان کا منھتاریخ کے سچے آئینے میں دکھا سکے۔
جواں سال محمدبن قاسم پہلا مسلم شخص ہے جس نے سب سے پہلے سر زمین ہند پر قدم رکھا تھا۔ انھوں نے راجہ داہر کو اس کی بد عہدی اور وعدہ خلافی کی وجہ سے جنگ کے میدان میں شکست دی تھی اور جب ہزیمت کا کشکول اس کے ہاتھوں میں تھماکر ،سندھ میں تخت نشین ہوا تو یہاں ہندؤں کے ساتھ روادارانہ اور دوستانہ تعلقات کا ایک خوشگوار اور قابل رشک تصور پیش کیا، جمہوریت اور سیکولرازم ان کے طرز حکومت کا شناخت نامہ تھا، ان کے عہد حکومت میںہندوؤں اور بودھوں کو پوری مذہبی آزادی دی گئی ، کسی سے مدہب اور سماج کی بنیاد پر تعرض نہیں کیاجاتا تھا۔ انھوں نے حکومت میں سب کو حصول معاش کامساوی موقع فراہم کیا اوران کو بڑے قابل قدر عہدے تفویض کئے گئے۔ ایک غیر مسلم کاک ان کے دور حکومت میں وزارت اعلی کے قابل قدر عہدے پر فائز تھا۔ لیکن پھر بھی محمد بن قاسم زعفرانیت کا شکار برادران وطن کی نظروں میں ظالم اور ہندو دشمن قرار دیا جاتا ہے۔مسٹر چونی لال نے اپنے تحقیقی مضمون میں حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ محمد بن قاسم ہندوؤں کی سوشل اور مذہبی رسومات واعتقادات کی عزت کرتاتھا، ہندوؤں کی سوشل اور مذہبی انسٹی ٹیوشنوں میں کوئی مداخلت نہیں کرتا تھا‘‘۔ (اسلام اور غیر مسلم : ۱۷۵)
 شرپسندعناصر نے یہ مفروضہ طشت ازبام کررکھا ہے کہ محمود غزنوی ایک تنگ دل اور متعصب مسلم حکمراں تھا،وہ ہندوؤں سے دشمنی رکھتا تھا،اس نے غیر مسلموں سے ان کی مذہبی اور سماجی آزادی سلب کرلی تھی، جب کہ تاریخی حقائق کچھ اور کہتے ہیں۔میدان جنگ کی بات دوسری ہے، یہاں تو ایک بھائی دوسرے بھائی کی گردن مارنے کے درپے ہوتا ہے۔ ورنہ محمود غزنوی تو اہنسا اورعدم تشدد کا داعی تھا۔ ان کی رحم دلی اور نرم خوئی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ راجپال ، انند پال اور دیگر ہندوراجاؤں کی مسلسل ناقابل برداشت بدعہدیوں کے باوجودجب وہ ان کے مد مقابل ہوتے تھے، وہ ان سے چشم پوشی اور درگزرکر تے تھے۔ ہزاروں غیر مسلم فوجی ان کے دفاعی نظام میں سپہ سالار اور سپاہی کی حیثیت سے موجود تھے۔تلک سندر اور بیج ناتھ کو انھوں نے جنرل کے عہدے پر فائز کیا تھا۔محمود غزنوی ہی وہ مسلم حکمراں ہے جس نے سومنات کا مفتوحہ علاقہ راجہ سکھ پال کو عطیہ میں دے دیا تھا، یہ وہی راجا سکھ پال ہے جس نے کئی بار عہد و پیمان شکنی کا ارتکاب کیا تھا ۔ محمود غزنوی کی رواداری کا یہ عالم تھا کہ اس نے عیر مسلموں کی دل جوئی کے لیے اپنی حکومت کے سکہ کے ایک جانب عربی میں تو دوسری جانب ہندؤوں کی متبرک مدہبی زبان سنسکرت میں عبارت نقش کرائی تھی۔ان تمام واشگاف حقائق کے باوجود محمودغزنوی ظالم و جابر اور متعصب و تنگ نظر ہے۔زعفرانیت زدہ لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے مسٹر الفنسٹن کا مندرجہ ذیل اعتراف کافی ہے، وہ کہتا ہے:’’ ہم ایک مثال بھی ایسی نہیں سنتے کہ اس نے (محمود غزنوی نے) کسی ہندو کو جبراً مسلمان بنایاہو، ایک شہادت بھی ایسی نہیں کہ جنگ یا قلعہ گیری کے موقع کے سوا اس نے کسی ہندو کو قتل کروایا ہو‘‘۔(تاریخ ہند: ۳۳۶)
محمد غوری اسلامی مزاج و منہاج پرنظام حکومت چلانے والا ایک نہایت مخلص،اور نرم دل بادشاہ گزرا ہے، رواداری اور ایثار وہمدردی کے جذبات کا عالم دیکھئے کہ اس نے اپنے سب سے بڑے دشمن ’’پرتھوی راج ‘‘ کے دونوں بیٹوں کی دل کھول کر شاہانہ انداز میں نگرانی وسرپرستی کی ، ڈاکٹر تارا چندلکھتے ہیں:’’ محمود اور محمد غوری مذہبی تعصب سے بالکل پاک تھے ، اگر چہ انہوں نے ملاحدین کو سزائیں دیں، ؛لیکن کسی کو تبدیلی مذہب پر مجبور نہیں کیا‘‘۔(اسلام اور غیر مسلم : ۱۸۸)
تغلق خاندان سے تعلق رکھنے والا مسلم بادشاہ،محمد شاہ تغلق علم دوست اور عدل وانصاف میں ضرب المثل تھا، اپنے مذہب کی پیروی میں سخت تھا، شریعت محمدیہ میں مداخلت اور مذہب اسلام کے معاملے میں کسی بھی مفاہمت کا روادار نہ تھا، مگردیگر مداہب و ادیان کے حوالے سے متعصب بھی نہیں تھا، بقول ایشوری پرساد’’ اس کے تعلقات ہندؤں کے ساتھ بہت اچھے تھے‘‘۔
 ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورسیاسی مفادات کی روٹی سینکنے کے لیے ، چند متعصب اور خام ذہن کے حامل ہندؤں نے ان کی طرف نامناسب اور غیر حقیقی واقعات کا انتساب کیا ہے۔ ہندؤں سے مذہبی آزادی سلب کرنے، مندروں کا انہدام ،  مذہبی میلوں میں آمدورفت پرعام رعایا کی پابندی اور پوجاپاٹ میں اڑچنیں ڈالنے کے نام نہاد واقعات یہ سب کچھ ان کے پس منظر اور پیش منظر میں غور نہ کرنے کا فطری نتیجہ ہیں، چوں کہ بعض مندر اور مذہبی میلے اخلاقی بگاڑ ، فتنوں اور فحاشی وعریانیت کا اڈہ اور ذریعہ بن گئے تھے ؛ اس لیے اخلاقی تقاضوں کے پیش نظر اُن پر پابندی مملکت کے نظم ونسق کے تئیں بالکل موزوں اور مناسب تھا؛ چنانچہ ایک اسکالر’’ایشورٹوپا‘‘ لکھتا ہے:’’فیروز شاہ نے اسلامی قانون کے تحت اور دوسری طرف پبلک کی بھلائی کے پیش نظر ان مندروں کو توڑا‘‘۔ (ہندی مسلمان حکمرانوں کے سیاسی اصول: ۸۹)
سلاطین مغلیہ کے جدا مجد ظہیر الدین بابرکو دوسرے مسلم حکمرانوں کے بالمقابل کچھ زیادہ ہی ملعون و مطعون ٹھہرانے کی کوشش کی گئی ہے اور تاریخ کے آئینے میں ان کے روشن چہرے کو اتنا دھندلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کی سفاکانہ اور قاتلانہ ذہنیت کی تعبیر کے لیے موجودہ عہد میں ہندی مسلمانوں کو بابر کی اولاد کا طعنہ دینے کا رجحان عام کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ ظہیر الدین بابر روادار تھا، فراخ دل تھا، غیر مسلموں کا خیر خواہ تھا،عدل گستر اور عایا پرور تھا، اگر اس کی سرشت میں یہ عناصر داخل نہ ہوتے، تو وہ کیوں اپنے بیٹے ہمایوں کو ہندؤوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر سگالی کی تلقین کرتا۔بابرنے بستر مرگ پر ہمایوں کو جن ہمدردانہ کلمات کے ساتھ وصیت کرکے اپنی رعایا سے حددرجہ قلبی لگاؤ کا اظہار کیا تھا ، وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔اور فرقہ پرست عناصر کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے،ہندؤں کے جذبات واحساسات کا خیال رکھنے کے متعلق انہوں نے ہمایوں سے کہا تھا: ’’ مذہبی تعصبات سے اپنے دماغ کو متأثر نہ ہونے دینا، ہر قوم ومذہب کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ایک غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنا ، تم کبھی بھی کسی قوم کے عبادت خانہ کو منہدم نہ کرنا‘‘۔
جس بابر کو آج ایودھیا میں رام مندر کے انہدام کا قصور وار ٹھرایا جارہا ہے اور اس کی جگہ تعمیر شدہ مسجد کو مسمار کرکے پورے ملک میں فرقہ واریت کا ننگا ناچ ہوا اور ہنوز یہ سلسلہ مختلف حیلوں حوالوں سے جاری ہے، اسی بابر نے ایک اچھوت مہترانی کے معصوم بچے کو بد مست ہاتھی کی زد سے بچاکر اپنے سینے سے چمٹا لیا تھا، جس کی چیخ و پکار اور آہ وبکاء کو جائے وارادت کے قریب ہی موجود ایک اعلی ذات کے راجپوت نے سننے اور اس کی مدد کو پہنچنے سے صرف اس لیے انکار کردیا تھا کہ وہ ایک نیچی دات کے بچے کو ہاتھ لگاکر اپنی شان و شوکت اور اپنی نام نہاد مدہبیت کو بھرشٹ کرنا نہیں چاہتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ بابر ایک سچا رحم دل اور رعایا کا بہی خواہ اورانسان دوست حکمراں تھا۔مجھ جیسے نو عمر اور ناتجربہ کار کو تو اس بات پر کبھی یقین نہ آیا کہ ایسا نیک دل انسان کیسے کسی مذہب کی عبادت گاہ کو مسمار کرسکتا ہے۔اگر چہ تاریخی حقائق نے ان تمام الزامات کے غبارے کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے، مگر جن لوگوں نے بھی بابر پر مندر شکنی کایہ الزام رکھا ہوگا، کیا اس نے کبھی تنہائی میں بابر کی غیر متعصب زندگی کے خدو خال کا مطالعہ نہیں کیا۔
شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے پوتے اورعظیم مسلم بادشاہ جہاں گیر پر بھی لعن طعن کرنے اور اس کو متعصب ٹھہرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالاں کہ جہاں گیرظلم واستحصال اور جبر وتشدد سے سخت نفرت کرتاتھا، غیر مسلم رعایا کے جائز مطالبات کے پورا کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو اپنا اولین فریضہ تصور کرتاتھا،ان کے عہد حکومت میں بڑے بڑے مندر تعمیر ہوئے،متھرا میں واقع ’’گوبند دیوی‘‘ کا مندر بھی انہی کی کرم فرمائی اور نواز شوں کارہین منت ہے،  جہاں گیرمیں مذہبی اور سماجی تعصب نام کو بھی نہ تھا، وہ تو اتنا وسیع الظرف تھا کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میںبھی خندہ دلی اور پوری شاہانہ آن بان اور لاؤ لشکر کے ساتھ شرکت کرتا تھا۔
جہاں گیر کے لخت جگرشاہ جہاں کی رواداری اور رعایا پروری سے کون واقف نہیں۔ اس کے عہد حکومت میں مختلف علاقوں سے لوگ آئے ،جن کی زبان بھی مختلف تھی اور طرز بودو باش بھی۔ مختلف تہوار منانے والے ، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف تہذیب وتمدن کو اپنا نے والے ہندوؤں کی اس وقت ہندستان میںکثرت تھی؛ مگردین الہی کے موجد اکبر کے پوتے شاہ جہاں نے ایک رواداراور جمہوریت پسند حکمراں کی نفسیات کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے غیر مسلم رعایا کے مذہبی جذبات واحساسات اورافکار ونظریات کا پورا پاس ولحاظ رکھا، انہیںمکمل مذہبی آزادی دی؛ ہندستان کے نامورمصنف حفیظ اللہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ:’’شاہ جہاں اپنی رعایا کے ساتھ کسی مذہبی امتیاز کے بغیر یکساں سلوک کرتاتھا اور نہایت فراخ دلی کے ساتھ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر ہندؤں کو مامور کرتا تھا‘‘۔ (اسلام اور غیر مسلم :۲۰۱)
مسلسل پچاس سالوں تک ہندوستان پر حکومت کرنے والے قابل فخر مسلم بادشاہ اور نگ زیب عالم گیر پر تو خاص طور سے فرقہ پرستوں کی نظر عنایت مرکوز رہی ہے۔ شروع سے ہی ہمارے نام نہاد تاریخ نگاروں نے ان کے طرز حکومت کا مشروط دہن کے ساتھ محاسبہ اور محاکمہ کیاہے۔ اور اس طرح ان کے اوپر بھی نفرت وتعصب کا لبادہ ڈال دیا گیا ہے، عموماً یہ بات مشہور کردی گئی ہے کہ اس نے لاکھوں ہندؤں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا، لاکھوں غیر مسلموں کو تہ تیغ کیا، کئی مندروں کو توڑا،انہیں سیاسی ، معاشی اور اقتصادی سطح پر لاچار وکمزور کیا، لیکن سچی اور حقیقی تصویر کچھ اور ہے۔ تاریخی اور اق اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ وہ بڑے ہی انصاف پسند اور رعایا پر ور تھے۔ ان کی عالم گیر اور قابل رشک رواداری سے متأثر ہوکر ایک ہندو مؤرخ لکھتاہے: ’’کاشی پر یاگ اور دوسری عبادت گاہوں کے لیے اس نے جو جاگیر یں وقف کی ہیں اور ہندو پیشواؤں کے ساتھ جو رعاتیں کی ہیں، ان سے اس کی انصاف پسندی ثابت ہوتی ہے۔(تاریخ ہند:۶۵۸)
اورنگ زیب اپنے مذہب اور اسلامی مسلمات سے انحراف اور روگردانی کو برداشت نہیں کرتے تھے ، مگریہ حقیقت بھی بجا ہے کہ انہوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے کوئی سرکاری یانیم سرکاری تنظیم نہیں قائم کررکھی تھی، جس سے اسلام کی توسیع وتبلیغ کا کام لیا جاتا رہا ہو، چنانچہ پروفیسر آرنلڈ نے لکھا ہے:’’ اس نے کبھی کسی غیر مسلم کو بالجبر مسلما ن نہیں بنایا ؛بلکہ اس نے غیر مسلموں کی دلداری کی انتہائی کوشش ہے‘‘۔(پریچنگ آف اسلام:۱۰)
 اورنگ زیب کے عہد حکومت میں مندریں پوری طرح تحفظ کے زیر سایہ تھیں، ان میں دستبردسے کام نہیں لیا جاتاتھا۔ اور اگرہندؤوں کی کسی عبادت گاہ کو مسمار کیا گیا ہے تو وہ بالٹیکل مصالح کی بنیاد پر تھا؛ وہ عبادت گاہ نہیں رہ گئی تھی، بلکہ بوالہوسوں کی عیاشی اور لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کا اڈہ بن گئی تھی۔کاشی کے جس مندر کے انہدام کا الزام اورنگ زیب کے سر رکھا جاتا ہے، وہ مندر ملک مخالف سازشوں اور بد کاریوں کا اڈہ بن گیا تھا۔چنانچہ ایک انگریزسیاح ہملٹن نے اورنگ زیب کے عہد حکومت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھاہے:’’ ریاست کا مسلمہ مذہب اسلام ہے۔ ہندؤں کے ساتھ مذہبی رواداری پورے طورپر برتی جاتی ہے۔ وہ اپنے برت رکھتے ہیں اور اسی طرح تہوار مناتے ہیں جیسے اگلے زمانے میں مناتے تھے‘‘۔(اسلام اور غیر مسلم:۲۲۴)
اگر اورنگ زیب عالم گیر مندر شکن اور ہندو دشمن ہوتا تو وہ کیوں بنارس کے حاکم ابو الحسن کے نام فرمان جاری کرکے یہ کہتا کہ’’ہماری پاک شریعت اور سچے مدہب کی رو سے یہ ناجائز ہے کہ غیر مدہب کے قدیم مندروں کو گرایا جائے۔۔۔۔۔ یہ حکم دیاجاتا ہے کہ آٹندہ سے کوئی شخص ہندؤوں اور برہمنوں کو کسی وجہ سے بھی تنگ نہ کرے اور نہ ان پر کسی قسم کا ظلم کرے۔‘‘
اورنگ زیب کے دور حکومت میں غیر مسلموں کو بڑے اعزاز ات ومناصب بھی دیے گئے، گورنر، جنرل ، وائسرائے اور کمانڈر انچیف جیسے قابل قدر عہدے ان کے سپرد کئے گئے۔ اچاریہ پر فلاچندرائے کے مطابق ’’شہنشاہ اورنگ زیب کے عہد میں سلطنت کے اندربڑی بڑی ذمہ داری کے عہد ے ان کو ملے ہوئے تھے‘‘۔ ان کے علاوہ دیگر تمام مغل بادشاہوں نے بھی ہندؤں کے ساتھ روادارانہ اور برادرانہ سلوک کیاہے۔ اور انہیں برابر کا شہری سمجھتے ہوئے ہر طرح کے جائز حقوق سے نوازا ہے؛غیر مغل مسلم بادشاہ شیر شاہ سوری بھی بڑا انصاف پرور اور روادار تھا۔ وہ خود کو ہر مذہب کا حاکم اور سرپرست تصور کرتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ اگر کسی نے بھی میری رعایا کے کسی فرد پر ظلم کیا تو میں اس پر بجلی بن کر گروں گا اور اس کو مٹاکر ہی دم لوں گا۔ شیر شاہ سوری کے فرمان میں یہ درج تھاکہ’’ غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بالکل محفوظ رہیں۔ ان عبادت گاہوں کی جو مسلم حاکم حفاظت نہیں کرے گا اسے معزول کردیا جائے ‘‘۔( ٹی لیون:۷۳)
عہد وسطی میں مسلم حکمرانوں کی رواداری ، رعایا نوازی اور خیر سگالی کی یہ ایک جھلک ہے۔ اس کا تفصیلی مطالعہ بہت سے مخفی گوشوں سے پردہ اٹھائے گا۔جس کو الزامات کی دبیز چادر میں ڈھک دیا گیا ہے۔اگر ہم کھلے ذہن کے ساتھ ہندوستان کے عہد وسطیٰ کے نظامہائے حکومت اور اس وقت کے حکام کی روشن زندگیوں کے خدو خال کا مطالعہ کریں تو ہمارے مؤرخین اور سیاست دانوں کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ محمود غزنوی سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک سارے مسلم حکمراں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی سماج کے حقوق و واجبات کے تئیں مخلص اور روادار تھے۔انھوں نے طبقاتی اور سماجی بنیادوں پر حکومت نہیں کی ہے، بلکہ مساوات اور برابری ان کی حکومت کا نشان تھا۔ہمیں غور کرنے پر ان کے عہد حکومت میںخوش خوئی، خیر سگالی بقائے باہم اور روادری کی ایسی نظیریں ملیں گی جن کی مثال پیش کرنے سے جمہوریت اور سیکولرازم کا دم بھرنے والی یہ مہذب دنیا قاصر ہوگی۔
اگر اس زوال آمادہ عہد میں بھی ان کے اختیار کردہ نظام حکومت کو منزل کا نشان تصور کرلیا جائے اور جمہوریت و سیکولرازم کا دم بھرنے والی یہ دنیا ان کی پالیسیوں کو بنیاد بناکر اپنی سیاسی اور معاشی پالیسی ترتیب دینے لگے تو نہ صرف یہ کہ نفرت و دشمنی اور بغض و عداوت کی افسردہ اور مسموم فضاؤوں میں اخوت و محبت اور مودت وعطوفت کی خوشبو بکھیری جاسکتی ہے، بلکہ معاشی کساد بازاری اور عالمی دہشت گردی کے بھوت سے خوف زدہ اس دنیا کو ہمہ جہت ترقی کی راہ پر بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ ماضی کی شان دار روایات سے روشنی لے کر ہی ہم، مستقبل کی راہوں میں آنے والی ظلمتوں کے قافلے سے مقابلہ کرسکتے ہیں اور زندگی کی شب تاریک کو تابناک سحر میں تبدیل کرسکتے ہیں۔جامع مسجد کے بلند وبالا منارے، تاج محل کا حسن اور لال قلعے کی مضبوط سرخ دیواریں یہی کچھ ہمارے وقت کے حکمرانوں سے کہ رہی ہیں۔ کاش کوئی ان کی آواز پر کان دھرتا، تاکہ جنت نشاں ہندستان کے سر سے فرقہ پرستی اور نفرت و عداوت کے ناپاک اور منحوس سایے کا خاتمہ ہوتا اور کیا رام اور کیا رحیم، سبھی بھائی بھائی کی طرح رہتے۔اور ملک ومعاشرے کی تعمیر و ترقی میں باہمی تعاون اور خیر سگالانہ جذبات کا مظاہرہ کرتے۔٭٭٭
ABRAR AHMAD IJRAVI
ROOM NO.21, LOHIT HOSTAL, JNU,
NEW DELHI-110067
MOB:9910509702
Email:abrarahmadijravi@gmail.com

ہمارے حکمرانوں کے اعصاب پر اسرائیل ہے سوار


                                                                  ابرار احمد اجراوی، جے این یو، نئی دہلی
مختلف ممالک و اقوام کے مابین تعلقات اور قربت کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ بقائے باہم کے اصول کی پیروی کرکے اور خوش گواربرادارانہ فضامیں ہی کوئی ملک ہمہ جہت ترقی کی لیلائے مقصود کو پاسکتا ہے۔ لیکن اگر دو ممالک کے مابین یہ تعلقات دوسرے فریق ملک کے ساتھ سیاسی رقابت اور اس ملک کے مخصوص طبقے کے ساتھ مذہبی یا ثقافتی بغض و عناد کی بنیاد پراستوار ہوں ، تو کسی بھی طرح اس کی حمایت یا ستائش نہیں کی جاسکتی، بلکہ دو حلیف ممالک کے درمیان اس قسم کی رقابت آمیز سیاسی دوستی کو چینج اور چیلنج کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ کسی ملک کے لیے دوسرے ملک کے داخلی امور میں مداخلت اس ملک کے حق خود ارادیت اور اس کی خود مختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے جس سے اقوام متحدہ کے منشور میں بھی سختی سے منع کیا گیا ہے۔چین کا ہندستانی سر زمین پر در اندازی کا موجودہ عمل، یا سرحد پار سے ہندستانی افواج کے خلاف پاکستان کی غیر منصفانہ جنگی کارروائی دونوں غیر ملکی مداخلت کے زمرے میں آتے ہیں۔
کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کبھی راست طور پر ہوتی ہے اور کبھی بالواسطہ۔ جن ممالک کی سرحدیں با ہم ملی ہوئی ہیں، وہاں تو راست مداخلت کی مثالیں ہر وقت سامنے آتی رہتی ہیں، مگر جن ممالک کی سرحدوں کا کوئی نقطۂ اتصال نہیں ہوتا، ایسی صورت میں کسی ملک کے مقننہ اور انتظامیہ میں مداخلت اور اپنے اثر و رسوخ کو راہ دینے کی دوسری شکلیں ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اسرائیل کی سرحدیں ہم سے نہیں ملتیں ، اس لیے اس کی طرف سے ہندستان کے ساتھ کوئی سرحدی مداخلت، سیاسی تنازع اور کسی قدر طاقت کے توازن کی وجہ سے فوج کشی کا امکان تو نا پید ہے، لیکن ہندستانی پالیسی اور یہاں کی انتظامیہ پر اثر انداز ہونے کے لیے اتنی دوری تو کیا، سات سمندر پار کی دوری بھی عبور کی جاسکتی ہے۔ اسرائیل کبھی خفیہ تو کبھی علانیہ ہندستانی معاملات میں دخل درمعقولات کے عالمی جرم کا ارتکاب کرتا رہا ہے اور ہم ہیں کہ اس ذلت کے ٹوکرے کو بخوشی اپنے سر پر اٹھاتے پھرتے رہے ہیں، ہندستان نے عالمی ایٹمی ایجنسی میں ایران جیسے دیرینہ دوست اور تہذیبی وثقافتی اعتبار سے کافی حد تک قریب ملک کے خلاف ووٹ دیا، اس نے، اقتصادی اعتبار سے ایران کی کمر توڑنے کے لیے دوسری عالمی طاقتوں کے دباؤ میں آکر ، ایرانی گیس ڈیل پر مبنی امور کو مسترد کردیا، فلسطینیوں کے حوالے سے،ہندستان نے ہمت مردانہ اور جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے دوستانہ موقف کا اظہار نہیں کیا،تو یہ سب کچھ اس لیے کہ ہمارے ملک کے حکمرانوں کے اعصاب پر اسرائیل نام کا بھوت اس طرح سوار ہے کہ ہم اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے تعلق سے بھی کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔  اگر ذرائع پر یقین کریں تو ملک کی اکثریت کی مخالفت کے باوجود جمہوریت کے مندر ہندستانی پارلیمنٹ میںامریکہ کے ساتھ جو نیو کلیائی معاہدہ ہواتھا، اس سے بھی اسرائیلی مداخلت کی بو آتی ہے۔اسرائیلی وزرائے اعظم نے ہندستان کو دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کے لیے بھی آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خود اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن کوریان نے عرب اسرائیل جنگ کے بعد پیرس میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:’’بھارت پاکستان کا ہمسایہ ہے جس کی ہندو آبادی پاکستان کے مسلمانوں کی ازلی دشمن ہے ۔۔۔بھارت کے ہندو کی اس مسلم دشمنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں بھارت کو استعمال کرکے پاکستان کے خلاف کام کرنا چاہیے۔‘‘(بحوالہ جیوش کرانیکل ۱۹؍ اگست ۱۹۶۷ء)
آحر ہمارے حکمراں کیوں اسرائیل کی اس قدر ناز برداری اور اس کی جی حضوری پر مجبور ہیں؟ اور وہ کیوں اسرائیل کی دوستی میں اپنے اندرونی معاملات میں بھی کوئی فیصلہ کن موقف اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اس حقیقت سے کما حقہ واقفیت حاصل کرنے کے لیے ہمیں ہند-اسرائیل تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ ہندستان کے اسرئیل کے ساتھ سرسری تعلقات کو قریبی رشتوں میں بدلنے میں راجیو گاندھی کا کلیدی رول رہا ہے۔ ان کے عہد حکومت میں اسرائیل اور ہندستان کے ما بین تعلقات کا جو بیج ڈالا گیا تھا، اس کو قومی جمہوری محاذ(این ڈی اے) کے زمانے میں اتنی غذا پہنچائی گئی کہ وہ بہت جلد ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرگیا ۔ بی جے پی کے کئی کابینی وزرا اور سرکردہ رہ نماؤوں نے اسرائیل کے تابڑتوڑ دورے کیے اور تعلقات کے محل کو مضبوط کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ اس کے بعدکانگریس کی قیادت میں یوپی اے سرکار نے بھی ان تعلقات کی آبرو بچائے رکھی ہے ۔ اس وقت بھی کانگریس کی اعلی قیادت میں بہت سے اسرائیل نواز رہنماموجود ہیں۔ ان کی اسرائیل نوازی میں غلو کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایٹمی ایجنسی میں ہمارے وزیر اعظم نے ایران کے خلاف ووٹ دیا ، جس پر ہندستان کے بیش ترحقیقت پسند حلقوں نے ناراضگی ظاہر کی تھی، تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے موجودہ وزیر مملکت راجیو شکلا نے اسرائیل نواز اور عالم اسلام مخالف بیان ٹائمز آف انڈیا میں دیا تھا، جس میں انھوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا تھا کہ ہندستان کو ایران یا عالم اسلام سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آغاز جنوری۲۰۱۲ء میں کانگریسی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اپنے پہلے اسرائیلی دورے پر گئے تھے، (۲۰۰۰ء میں بی جے پی کے اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے بعد کسی ہندستانی وزیر خارجہ کااپنی نوعیت کا یہ پہلا دورہ بھی تھا)وہاں انھوں نے اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید وسعت دیتے ہوئے ۱۰؍بلین ڈالر تک پہنچا دیا تھا۔ جس پر ماہرین اور تجزیہ کاروں نے اسرائیل اور ہندستان کے درمیان روز افزوں تعلقات اور نزدیکی پر اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا تھا اور اس کو ہندستان جیسے کثیر قومی ملک کے لیے نیک شگون سے تعبیر نہیں کیا تھا۔ اس دورے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ جہاں دفاع، داخلی سلامتی اور سیاسی شراکت کے کئی اہم معاملات پر مبنی معاہدوں پر دست خط ہوئے، وہیں اسرائیل نے ایک اور کامیابی یہ حاصل کی کہ ہندستان کے آئی ٹی ہب مشہور صنعتی شہر بنگلور میں اسرائیلی سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت بھی حاصل کرلی۔ اس دورے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے کتنے قریب آگئے اوراندرونی و ملکی سیکورٹی کے معاملات میں شراکت پر کتنے دور رس اور نتیجہ خیز معاہدے ہوئے کہ اسرائیل کے پروجیکٹ انڈیا پروگرام کے ڈائریکٹر مارک سلومان نے خبر ساؤتھ ایشیا کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے یہ کہا:’’دونوں ممالک کو انتہا پسند عناصر سے مستقل خطرہ درپیش ہے اور جب دونوں ممالک کے مابین تعلقات کا آغاز ہوا تھا تو دفاع اور ملکی سلامتی کے معاملات ان کے تعلقات کی اہم بنیاد ثابت ہوئے تھے۔‘‘
اگر مارک سلومان کی باتوں پر یقین کرلیا جائے اور یقین نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں، تو یہ بہت دور رس اثرات کا حامل بیان ہے۔ ملکی سلامتی کے معاملات میں کسی ملک کے ساتھ شراکت کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس شریک کارملک کو اپنے ملک میں مداخلت اور دخل در معقولات کی کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ یوں بھی اسرائیل اور یہودیوں کی سرشت اور ان کے طرز حکومت سے ہر باشعور شخص واقف ہے کہ یہ قوم اتنی مکار ،دسیسہ کار، فریبی اور مطلب پرست ہے کہ دوسرے اقوام و ممالک کو باہم دست و گریباں کرکے اپنے مفادات کی روٹی سینکنا چاہتی ہے۔یہ لوگ تاجر،صنعت کار، دانش ور اور سائنس داں کے روپ میں بھی ہر جگہ پہنچ کر اپنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ نازیوں نے جرمنی میں یہودیوں کو بلا وجہ تہ تیغ نہیں کیا تھا۔اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد کا تو مفوضہ کام ہی یہ ہے کہ وہ دوسرے ممالک کی خفیہ انجنسیوں سے اتحاد کرکے اپنے مخالفین کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ کثرت میں وحدت کے تصور پر یقین رکھنے والے ہندستان میں بھی اسرائیل نام کی نا آشنائے انسانیت نا جائزریاست کے مخالفین کی کمی نہیں ہے۔ کیا معلوم کہ اسرائیل اپنی مختلف رفاہی تنظیموں کے توسط سے وطن عزیز ہندستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے عمل کو بروئے کار لانے میںمصروف عمل ہو۔ اور اس کا انکشاف بھی کئی بار ہوچکا ہے۔ لکھنؤ کے مشہور شیعہ عالم دین مولانا سید کلب جواد نے بھی اپنے جمعہ کے خطبے میں اس امر کا انکشاف کیا تھا کہ لکھنئو میں فری میسن(Free Mason) نام کی ایک یہودی سوسائٹی کام کر رہی ہے،جس کے ارکان اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔
اسرائیل نے ڈھکے چھپے طور پر ، اپنے کارندے اور مخصوص ذہنیت کے حامل افراد کی آڑ میں،ہماری انتظامیہ میں بھی اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ ہندستان میں کئی دہشت گردانہ حملوں اور فرقہ وارانہ فسادات میں اسرائیل کا چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے ۔گجرات کے بد نازمانہ مسلم کش فساد  میں بھی اسرائیل سے اسپانسر شدہ طریقوں سے کام لینے کا کئی بار انکشاف کیا جاچکا ہے ۔ یہودی دہشت گردانہ حملہ کراکے ایک مخصوص فرقے کے خلاف دشمنی اور نفرت کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ریاست راجستھان میں گزشتہ مہینوں میں جتنے فسادات ہوئے ، ان میں بھی اسرائیل کا ہاتھ ہونے کا شبہ ہے۔ ۳۰؍ اپریل ۲۰۱۳ء کو قومی تنظیم میں شائع ایک خبر کے مطابق حال ہی میں سانگیرمیں بھڑکنے والے والے فسادات میں ایک مسلمان کی فیکٹری کو نذر آتش کرنے کے لیے جس مادہ کااستعمال کیا گیا تھا، وہ عام طور پر اسرائیل استعمال کرتا ہے۔خبر کے مطابق جب بھی اسرائیل کا کوئی وفد یہاں آیا ہے، یا ہندستان کا کوئی اعلی سطحی وفد اسرائیل کا دورہ کرکے لوٹا ہے، بڑے پیمانے پر فسادات رونما ہوئے ہیں۔ چناں چہ جنوری ۲۰۱۲ء میں اسرائیل سے ایک وفد کے لوٹنے کے بعد صرف ۱۲؍ ماہ کے اندر ۳۰؍ فسادات ہوئے۔ ۸؍ مارچ ۲۰۱۲ء کو اسرائیلی سفیر کے جے پور آنے کے فورا بعد صرف ۱۳؍ دنوں میں سات فسادات ہوئے۔ دوسرے ممالک میں فسادات کی آگ بھڑکانا یہود بے بہبود کا پرانا آزمائشی طریقہ ہے۔ جس کا اعتراف خود یہودیوں نے اس ۲۴؍نکاتی تجویز میں کیا ہے، جو ۱۸۹۶ء میں سوئزر لینڈ کے شہر بال میں خفیہ طریقے سے منظور کی گئی تھی،ساتویں تجویز میں یہ درج ہے:’’ہمیں پولس کے ذریعے یورپ میں اور یورپ کی وساطت سے دوسرے بر اعظموں میں بھی فسادات، انتشار اور جنگ و جدل کی آگ بھڑکانی ہے، اس سے ہمیں دوہرا فائدہ ہوگا۔‘‘(وثائق یہودیت، ص:۱۳۱، مترجم یحیی خان) یہودیوں کو اپنی اس خوئے بد پر کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے، چناں چہ تجویز ۹؍ میں یہ اعتراف کرتے ہیں:’’ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آج ہر طرف جو دہشت گردی اور بربریت پھیلی ہوئی ہے اس کا سر چشمہ ہم ہی ہیں۔‘‘(ایضا، ص:۱۳۶)سال بھر پہلے اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی پر حملے میں ہندستانی صحافی احمد کاظمی کی گرفتاری کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ ایک مخصوص ذہنیت کے حامل افراد کے اشارے پر انھیں دہشت گردی کے الزام میں حراست میں رکھا گیا۔ حالاں کہ واقعات و شواہد اس طرف اشارہ کر رہے تھے کہ اس حملے میں جو مادہ (اسٹیکر بم) استعمال کیا گیا تھا، وہ برطانیہ کا ایجاد کردہ ہے اور اس کا استعمال اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد، حزب اللہ کے رہ نماؤوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے کرتی ہے۔کیا یہ گرفتاری ہندستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مرادف نہیں؟ یہ سب کچھ اسرائیل کی خفیہ تنظیم موساد کی نگرانی میں ہورہا ہے، جس کے کارندے ہندستان کے گوشے گوشے میں موجود ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ہندستانی سیکورٹی کو تربیت دے رہے ہیں۔ (اسلام ٹائمز، انٹرویو، اصغر انصاری)
ہمیں اپنے ملک کی سالمیت و اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے حوالے سے اسرائیل کے خفیہ عزائم کی تہ میں جاکرمستحلم لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، اگر پڑوسی ملک پاکستان افضل گرو کی پھانسی کے معاملے پر پارلیمنٹ میں مذمتی قررا داد پاس کردے تو ہم اس پر چراغ پا ہوجاتے ہیں، لیکن ہم اسرائیل کی اپنے حساس اندرونی معاملات میں مداخلت اور ملک کے گوشۂ و کنار میں اس کی دندناہٹ کو شہد کے گھونٹ کی طرح حلق سے نیچے اتار لیتے ہیں۔ہمارے ملک میں اسرائیلی مداخلت کی بنیادی وجہ ہماری غلامانہ دہنیت ہے۔ ہم آزادی کے ۶۷؍ سال بعد بھی عالمی طاقتوں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اندرونی معاملات کے کامیاب تصفیے میں بھی دوسری طاقتوں کی طرف دست احتیاج دراز کرنے میں کوئی شرم وعار محسوس نہیں کرتے۔ ہماری قوت فکر و عمل فنا ہوچکی ہے، اسی لیے عالمی سطح پر ہمارا کوئی سیاسی وزن نہیں رہ گیا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے باہمی اختلاف،سیاسی پارٹیوں کی رسہ کشی، طبقاتی کش مکش اور رنگ و نسل کی بنیاد پر بنائی گئی خلیجوں کی دین ہے، ہم خودی اور عزت نفس کے جوہر سے محروم ہوگئے ہیں۔ اگر ہماری خودی بیدار ہوجائے تو اسرائیل تو کجا، عالمی طاقتوں کو بھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت اور ہماری زمین پر شر انگیزی کا یارا نہ ہو۔ ہمیں مارٹن لوتھر کے ان الفاظ کی صداقت پر ایمان لانا چاہیے، جو انھوں نے آج سے ۵۰۰؍ سال قبل یہودیوں کی سرشت سے مجبور ہوکر کہے تھے اور جو یورپ میں صدیوں گونجتے رہے تھے کہ:’’میں ہر خدا ترس عیسائی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ انھیں(یہودیوں کو) ہانک کر اپنے وطن سے باہر نکال دے تاکہ ہماری ارض مقدس ان کے وجود سے پاک ہوجائے۔‘‘
ABRAR AHMAD
ROOM NO. 21, LOHIT HOSTEL
JNU NEW DELHI 110067
MOB:9910509702

presenting my paper in a seminar held at New Delhi





Monday, 30 September 2013

Abrar ahmad ijravi



ہندستان کی علاقائی زبانوں کو یو پی ایس سی کے امتحانات سے ہٹانے کا حالیہ فیصلہ
مقامی زبانوں کے پردے میں اردوزبان اور مسلم طلبہ نشانے پر

تغیر اور تبدیلی انسانی زندگی کا خاصہ ہے۔ شاعر نے صحیح کہا ہے ثبات صرف تغیر کو ہے زمانے میں۔زمانے کی تیز رفتار ترقی کے پہلو بہ پہلو نہ چلنے والا شخص زندگی کے لق ودق صحراء میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ روئے زمین پر سانس لینے والے ہر شخص کو زمانے کی قیامت والی چال کے پیچھے دوڑنا اور بھاگنا پڑتا ہے۔مگر وہی تبدیلی محبوب اور مستحسن قرار دی جاسکتی ہے جس سے انسانی زندگی کے دوسرے لازمی شعبے متأثر نہ ہوں۔ اگر تبدیلی محض تبدیلی کے نقطۂ نظر سے دوسروں کو نقصان پہنچانے کی مذموم پالیسی سے مغلوب ہو کر برپا کی جائے اور اس کا منفی اثر دوسرے سماجی شعبوں پر پڑے، تو یہ نہ صرف متعلقہ قوم اور ملک کے لیے بلکہ پورے انسانی معاشرے کے لیے ناسور اور وبال جان بن جاتی ہے۔ اور اس کا یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کے گرداب میں الجھ کر انسانی معاشرے کا عام فرد ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
یونین پبلک سروس کمیشن ملک کا اعلی اور معیاری ادارہ ہے، جو سال بھر میں سول سروسز کے لیے ایک بار ملکی پیمانے پر امتحانات منعقد کراتا ہے۔ اس امتحان کے تین مرحلوں(Pre/Mains/Interview) میں کامیاب ہونے والے طلبہ اور طالبات ہی ملک کے اعلی ترین عہدوں پر فائز کیے جاتے ہیں۔یہ کامیاب طلبہ اور طالبات آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس اور آئی آر ایس وغیر ہ بن کر ملک کا نظم و نسق سنبھالتے ہیں۔ ان افسران کی متنوع اور غیر معمولی ذمے داریوں کو پیش نظر رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ ملک کی ہمہ جہت تعمیر اور ترقی کے لیے شہ رگ کی حیث رکھتے ہیں۔ سیاست اور اقتصادیات سے لے کر، خارجہ اور داخلہ پالیسی تک ملک کی تصویر اور تقدیر انھی کامیاب امیدوارں کی سوچ اور سمجھ بوجھ پر منحصر ہوتی ہے۔ ان امتحانات میں کامیابی ملک کے ہر طالب علم کا دیرینہ خواب ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اپنے تابناک مستقبل کے حوالے سے متفکر اور اعلی عہدوں پر متمکن ہوکر ملک و قوم کی خدمت کے جدبے سے شرسار طلبہ میٹرک اور انٹر کے بعد ہی اس امتحان کے مبادیات کی تیاری اور بھاگ دوڑ شروع کردیتے ہیں۔ یو پی ایس سی کے امتحانات اتنے سخت اور مشکل اور صاف و شفاف ہوتے ہیں کہ اس کے پہلے مرحلے(پری) کو ہی عبور کرناامیدواروں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس میں کامیابی کے بعدہی (Mains)اور انٹرویو کا مرحلہ آتا ہے۔
یو پی ایس سی وقفے وقفے سے امتحان کے طریقۂ کار، موضوع اور سوالات کے پرچوں کی نوعیت میں تبدیلی کرتا رہتا ہے۔دو سال پہلے Pre  کے امتحان سے اختیاری مضامین ہٹاکر CSAT متعارف کریا گیا اور اس باراس نے اپنے(Mains) امتحان کے فارمیٹ میں زبردست تبدیلی کی ہے۔ لیکن اس بار کی تبدیلی کا عمل ماقبل کی اصلاحات سے مختلف بھی ہیں اور سنگین بھی، یہ تبدیلیاں ہمہ گیر بھی اور دور رس اثرات کی حامل بھی۔یہ ساری تبدیلیاں یو جی سی کے سابق سربراہ پرووفیسر ارون ایس نگویکر کی قیادت میں تشکیل شدہ کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کی گئی ہیں، جس کو ہمارے وزیر اعظم نے حال ہی میں منظوری بھی دے دی ہے۔ امتحان کے طریقۂ کار میں اس تبدیلی کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے، جس کا نفاذ ۲۰۱۳ء کے امتحان سے ہوجائے گا۔
منظور شدہ سفارشات کے مطابق اب انگریزی زبان کا امتحان دینا لازمی ہوگا اور اس کے نمبرات بھی میرٹ میں جوڑے جائیں گے۔ماقبل میں انگریزی کا پرچہ صرف کوالیفائنگ کی حد تک اور پاسنگ نمبرات تک محدود تھا۔دوسرے یہ کہ اب ہندستان کی مقامی زبانیں اختیاری مضمون کے طور پر نہیں رکھی جاسکتیں، حالاں کہ پہلے انگریزی زبان کے ساتھ کسی ایک ہندستانی زبان میں میں بھی کم از کم نمبر حاصل کرنا ضروری تھا لیکن اس کا نمبر میرٹ میں نہیں شامل کیاجا تھا۔ یو پی ایس سی کے تبدیل شدہ فارمیٹ میں ایک شرط کا اور اضافہ کیا گیا ہے، وہ یہ کہ دستور ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل کسی بھی علاقائی زبان کے ادب کو اب وہی امیدوار طلبہ منتخب کرسکیں گے جنھوں نے بی اے میں اس موضوع کو مین سبجیکٹ کے طور پر پڑھا ہوگا۔یہ شرط صرف لٹریچر کے ساتھ لگائی گئی ہے، جب کہ سائنس اور سماجی علوم کے مضامین کے لیے ایسی کوئی شرط نافذ نہیں کی گئی ہے۔صرف اسی پر بس نہیں ، بلکہ یو پی ایس سی نے امتحانات کے میڈیم میں بھی ہنگامہ خیز تبدیلی کردی ہے۔ اب ہندی اور انگریزی کے علاوہ امتحان کا میڈیم وہی زبان ہوسکتی ہے، جو بی اے میں بھی اس طالب علم کا میڈیم رہی ہو۔مزید یہ کہ اس میڈیم میں پرچۂ امتحانات لکھنے کے لیے یہ بھی لازمی کردیا گیا ہے کہ اس میڈیم میں امیدوار اسی وقت پرچۂ سوالات حل کرسکتے ہیں جب امتحان میں شریک اس میڈیم کے مجموعی طلبہ کی تعداد ۲۵؍ سے کم نہ ہو۔بصورت دیگر انھیں ہندی اور انگریزی میں ہی لازمی طور پرپرچۂ سوالات حل کرنا ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوںیو پی ایس سی جیسا ملک کا باوقار اور معتبر ادارے اتنی بڑی تبدیلی کا خواہاں ہے اور کیوں مذکورہ  تبدیلی پر مبنی سفارشات پر پارلیمنٹ میں مہر تصدیق ثبت کردی گئی، اور اس کو وزیر اعظم سے منظو ری ملنے کے بعد آئندہ امتحانات سے نافذ العمل کردیا گیا۔ کیا یہ پہلے ہی سے کس مپرسی کا شکار ہندستان کی علاقائی زبانوں کے ساتھ نا انصافی نہیں؟ انگریزی زبان کی لازمی شمولیت کیا یہ مغربی تہذیب کی چکاچوند سے ہماری مرعوبیت کی دلیل نہیں؟ کیا یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی اور اپنی دھرتی پر جنم لینے والی شیریں زبانوں کو چھوڑ کر غیر ملکی زبانوں پر انحصار کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟یہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ ہمارے قومی اور علاقائی تہدیب و ثقافت کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ ہے، بلکہ ہمارے قائدین ملک اور مجاہدین آزادی نے مادری زبان میں تعلیم کا جو خواب دیکھا تھا، اس کی تکمیل کی راہ میں بھی ایک بڑا روڑا ثابت ہوگا۔
حکومت کے اس فیصلے پر سارے سیکولرہندستانی اور ماہرین تعلیم حیران اور استعجاب کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندستان میں سرکاری اسکولوں کے معیار تعلیم کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ ہماری حکومت سند یافتہ ناخواندہ افراد کی ایک ایسی بھیڑ تیار کرنا چاہتی ہے، جو نہ کسی تعلیمی ادارے میں درس وتدریس کے قابل رہیں اور نہ ہی محنت و مشقت کرکے روزی روٹی کمانے کے لائق۔حکومت نے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ(RTE Act) کے تحت یہ شرط بھی لگادی ہے کہ پرائمری اور مڈل اسکول کی سطح پر یعنی آٹھویں تک کسی بھی بچے کو امتحان میں فیل نہیں کیا جائے گا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا، بلکہ میٹرک میں بھی کچھ ایسا کمزور اور ڈھیلا نظام تعلیم اور طریقۂ امتحان حکومت نے تشکیل دے رکھا ہے کہ اس اہم امتحان میں بھی ہر بچے کو کامیابی کا سرٹیفکٹ مل جاتا ہے۔ حکومت نے اس امتحان میں یہ سہولت دے رکھی ہے کہ اگر طالب علم کسی بھی زبان والے مضمون (خواہ وہ انگریزی ہو، فارسی ہویا اردو)میں ۲۵؍ نمبر حاصل کرلے تو اس کو کامیاب قرار دیا جائے گا۔ طرفہ تماشا یہ کہ یہ ۲۵؍ نمبرات بھی طالب علم اپنی محنت اور صلاحیت کے بل پر حاصل نہیں کرتا، بلکہ ہمارے لنگڑے لولے تعلیمی سسٹم کی بدولت آسانی سے بغیر پڑھے لکھے گھر بیٹھے حاصل کرلیتا ہے۔نہ مہندی لگتی ہے، نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔وہ اس طرح کہ اساتذہ کے پاس زبانی امتحان کے نام پر جو ۲۰؍ نمبر ایکسٹرا ہوتے ہیں،وہ سارے نمبر طالب علم کو بڑی آسانی سے یا اساتذہ کی جیب گرم کردینے سے مل جاتے ہیں، باقی ۸۰؍ نمبرات میں سے اس کو اگر ۵؍ نمبر بھی مل جائے تو اس کو کامیابی کا تمغہ تھمادیا جاتا ہے، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ۸۰؍ میں سے یہ ۵ یا ۱۰؍ نمبر بھی اکثر طلبہ حاصل نہیں کرپاتے۔
انگریزی زبان کی تعلیم کا توہمارا یہ حال ہے اور کہاں مسند اقتدار پر براجمان ہمارے ارباب حل و عقد، جنھیں زمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں، انگریزی کو لازمی زبان قرار دینے کی حماقت کرنے جارہے ہیں۔کیا انھوں نے اپنے ملک کے بنیادی تعلیمی سسٹم کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ جو بچہ ۱۰۰؍ میں سے ۱۰؍ نمبر بھی جس زبان میں حاصل کرنے کا اہل نہ ہو، وہ کس طرح یو پی ایس سی کے امتحان میں لازمی زبان انگریزی کے سوالات کو کما حقہ حل کرپائے گا۔ کیا وہ اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام میں اتنی اصلاح ہوچکی ہے کہ ہر بچہ اس زبان میں فر فر لکھ،پڑھ اور بول سکتا ہے۔انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ سارے بچوں کے گارجین کے پاس اتنی استطاعت نہیں کہ وہ بھاری ڈونیشن اور خطیر فیس کا بوجھ اٹھاکر اپنے بچوں کو اعلی معیار کے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھا سکیں۔ آخر انھوں نے کیسے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہندستان کی مقامی زبانوں میں پرچہ حل کرنا قابل قبول نہیں ہوگا۔ کیا مقامی زبانوں میں پرچہ حل کرنے اور لکھنے پڑھنے سے بچوں کی تعلیمی نشوونما متأثر ہوتی ہے؟کیاہندستان کے دستور میں شامل ۲۲؍ زبانوں کو اختیاری مضمون کی صف سے نکالنے کا یہ احمقانہ فیصلہ ،بابائے قوم مہاتما گاندھی، ڈاکٹر داکر حسین اور سر سید کے اس تصورتعلیم کے صریح منافی نہیں کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے۔ کیایہ ہمارے ارباب حل و عقد کے قول و عمل کا تضاد نہیں کہ کہاں وہ ہندستان کی علاقائی زبانوں کے تحفظ اور اس کے فروغ کا دستوری دفعات کی روشنی میں عہد کرتے ہیں اور کہاں پارلیمنٹ کی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر یہ فیصلہ کہ مقامی زبان میں یو پی ایس سی کا پرچۂ سوالات حل نہیں کیا جاسکتا۔ ہندی اس ملک کی قومی زبان ضرور ہے، مگر اس ملک کی آزادی اور اس کو ترقی کے ہم دوش ثریا کرنے میں دوسرے مقامی زبانوں خاص طور سے ارود زبان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں، بلکہ اس عظیم جمہوری ملک کی پہچان اور شناخت بھی ہے۔ کیا ہمارے موجودہ وزیر اعظم کو یہ علم نہیں رہا کہ مقامی زبانوں میں وہی اردو بھی شامل ہے جس کے اشعار کو اکثر اپنی تقریر میں وہ خود اور دوسرے ارباب سیاست بھی دہرایا کرتے ہیں۔یہ وہی زبان ہے جس کو ہمارے پہلے وزیر اعظم پنڈت جوالہر لعل نہرو اپنی مادری زبان کہا کرتے تھے۔جس آئین ہند کی پاس داری کا ہمارے رہ نما حلف براداری کے وقت عہد کرتے ہیں ، اس کی دفعہ ۲۹(۱) میں یہ صراحت موجود ہے کہ ہندستانی شہریوں کو اپنی الگ زبان، طرز تحریر اور ثقافت کے تحفظ کا حق حاصل ہوگا۔ان کے قول و عمل کے تضاد پر چودھری محمد نعیم کا یہ شعر مکمل صادق آتا ہے
سب مرے چاہنے والے ہیں، مرا کوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں ارد کی طرح رہتا ہوں
اس پابندی کا سب سے زیادہ اثران زبانوں پر پڑے گا جو حکومت کی ستم ظریفی اور اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہیں۔ خاص طور سے بیچاری یتیم اردو زبان سے کچھ کرنے کا جذبہ اور ولولہ رکھنے والے طلبہ ان پابندیوں کی وجہ سے حوصلہ ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ چند سال قبل تک اردو میڈیم سے یو پی ایس سی کا امتحان دینے والے طالب علم امتحانات میں نمایاں مقام حاصل کرتے تھے، سید محمد افضل اور موجودہ عہد کے معروف فکشن رائٹر سید محمد اشرف سے ہندستان کا کون پڑھا لکھا شخص واقف نہیں جنھوں نے اردو میڈیم کے ذریعے یو پی ایس سی جیسا اعلی ترین امتحان پاس کیا، بہار کے داخلہ سکریٹری عامر سبحانی اورکشمیر کے شاہ فیصل کا نام اب بھی ہمارے دہنوں میںتازہ ہوگا، جنھوں نے ارود کو اختیاری مضمون رکھ کر یو پی ایس سی کا امتحان ٹاپ کیا۔ کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلمانوں کی صف سے اب کوئی اورسید محمد افضل، سید محمد اشرف ،عامر سبحانی اور شاہ فیصل جنم نہ لے۔ اردو جو پہلے سے ہی مرکزی اور ریاستی سطح پرحاشیے پر ڈال دی گئی ہے، اس کو میڈیم کے طور پر رکھنے کے لیے مجموعی طلبہ کی ۲۵؍ کی شرط والی شق کا بھی سب سے زیادہ عتاب اسی زبان پر نازل ہوگا۔ آخر کتنے ایسے طلبہ ہوتے ہیں جو یو پی ایس سی میں اردو کو میڈیم کے طور پر منتخب کرتے ہیں، ۲۵؍ کی شرط لگانا کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہوسکتی، اس طرح سارے مسلم طلبہ جو اردو میں ہی یو پی ایس سی کا امتحان دینا چاہتے ہیں، ان پر اعلی عہدوں تک پہنچنے کے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے۔ اس شرط کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔اگر سارے ہندستانی نہیں، تو کم از کم ملک کے۳۰؍ کروڑ مسلمانوں کے بچوں کے مستقبل کو پیش نظرر کھتے ہوئے حکومت کو اپنے اس مسلم اور اردو مخالف فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ ورنہ اس ملک کا مسلمان اور ارود جو پہلے سے ہی ملک کے معاشی اور تعلیمی نقشے میں پسماندگی اور زبوں حالی کا شکار ہیں، مزید پستی اور ابتری میں چلے جائیں گے۔
اس موقع پر اردو کے نام پر قائم اکادمیوں اور فروغ اردو کے عنوان سے قائم تنظیموں کی خاموشی بھی بڑی افسوس ناک ہے۔ جو لوگ اردو کی روٹی کھاتے ہیں اور صبح و شام اردو کی ترقی کا مالا جپ کر سیاست کے میدان میں اپنا قد اونچا کرنے کی فکر میں منہمک ہیں،ان کی مجرمانہ خاموشی اور قابل تأسف لاپروائی پر پورا اردو داں حلقہ انگشت بدنداں ہے۔ ان سے اچھے تو ملک کے ایک صوبے مہاراشٹر میں بولی جانے والی زبان مراٹھی کے پرستاران ہیں، جنھوں نے شیو سینا کے علاوہ اپنی مختلف تنظیموں کے پلیٹ فارم سے حکومت کو یہ انتباہ دیا ہے کہ اگر حکومت نے مقامی زبانوں کے تعلق سے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا تو ہم سڑک سے لے کر پارلیمنٹ اور اسمبلی تک احتجاج اور مظاہرہ کریں گے۔ اور اگر مراٹھی زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر رکھنے کے تعلق سے یہی صورت حال برقرا رہی تو ہم مہاراشٹر میں یوپی ایس سی کے امتحانات منعقد نہیں ہونے دیں گے۔
ہم کروڑوں اردو والوں کو بھی ان مٹھی بھر مراٹھیوں سے سبق لیتے ہوئے حکومت کے سامنے سڑک سے لے کرا سمبلی اور پارلیمنٹ تک اپنا احتجاج درج کرانا چاہیے، ہو سکے تو آئین و دستور کی روشنی میں ملنے والے حقوق وتحفظات کی روشنی میںعدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے۔ ہم اردو والے مراٹھیوں کی طرح کسی ایک خطے یا صوبے میں بھی محدود نہیں،ہماری تعداد تو ملک کے شمال و جنوب اور مشرق و مغرب میں ہی نہیں، سات سمندر پارامریکہ اور یورپ میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔ہمیں خود آگے بڑھ کر جام و مینا اٹھانے کا ہنر بھی سیکھنا چاہیے،صرف حکومت کے میٹھے وعدوں کے سہارے بیٹھنے سے اردو زبان و ادب کا کوئی بھلا نہیں ہوگا۔گاؤں سے لے کر ضلع اور ریاستی اسمبلیوں تک زبانی او ر تحریری طور پر احتجاج درج کرائیے، ورنہ اگر اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے،اور صرف یہ نعرہ دہراتے رہے کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے تو اس ملک کے لسانی منظر نامے سے ہماری شیریں اردو زبان عائب کردی جائے گی اور پھر تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔کیوں کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
*ABRAR AHMAD
ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL
JNU, NEW DELHI 110067
MOB:9910509702

                               چاہ کن را چاہ در پیش

 ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی نت نئے تنازعات کے حصار میں گھرتی جارہی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایک تنازع ختم نہیں ہوتا کہ دوسرانیا اور سنگین تنازع سر ابھار لیتا ہے۔۲۰۰۹ء میں جناح پر کتاب لکھنے کے جرم میں سینئیر لیڈر جسونت سنگھ کو پارٹی سے باہر کا راستہ دکھایا گیا، اسی سال مودی کے دباؤ میں قومی مجلس عاملہ سے سنجے جوشی نے استعفی دیا اور پارٹی کو خیر باد کہا، تجربے کار لیڈر نتن گڈکری کو دوسری مدت صدارت سے دور رکھا گیا، پارٹی کے خلاف بیان بازی کی پاداش میں رام جیٹھ ملانی کو بھی پارٹی کو الوداع کہنا پڑا، غرض یہ کہ معمولی معمولی باتوں پر اتنے اختلافت جنم لے رہے ہیں کہ بعض مبصرین کے مطابق بی جے پی اختلافات اور تنازعات کا معجون مرکب بن کر رہ گئی ہے۔ مارچ میںجو مودی کی ۷۶؍ رکنی نئی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، وہ بھی تنازعات کے گرداب میں پھنس کر رہ گئی تھی،کیوں کہ اس میں سینئر رہ نماؤوں کو نظر انداز کرکے ان چہروں کو فوقیت دی گئی تھی، جو مودی کے محبوب نظر اور مصاحب خاص تھے۔ در اصل جب سے آر ایس ایس کے منظور نظر شدت پسند لیڈر راج ناتھ سنگھ کے ہاتھوں میں بی جے پی کی کمان آئی ہے، برابر ان لوگوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جن پر کبھی بی جے پی انحصار کرتی تھی۔ اس وقت ایک اور بڑا بحران بی جے پی کے سر پر بادل کی طرح منڈلا رہا ہے۔ وہ ہے نریندر مودی کو انتخابی مہم کا سربراہ منتخب کرنے اور سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی کو حاشیے پر رکھنے کا معاملہ۔ گرچہ یہ بات پہلے سے طے تھی کہ گوا میں منعقدہ قومی مجلس عاملہ کی میٹینگ میں کئی بڑے فیصلے لیے جائیں گے اور نریندر مودی کو ہی انتخابی تشہیر مہم کا سربراہ مشتہر کردیا جائے گا، لیکن اڈوانی جی اور ان کے حامی لیڈران نے اخیر وقت تک انتظار کیا اور جب تمام فہمائش کے باوجود مودی کے ہاتھوں میں کمپین کمیٹی کی زمام کار سونپ دی گئی، لال کرشن اڈوانی نے اس قدم کو اپنی توہین کے مترادف تصو رکرتے ہوئے بی جے پی کے تمام عہدوں سے استعفی سونپ دیا، جوںہی استعفی کی خبر کا دھماکہ ہوا، بی جے پی کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سمیت بی جے پی کے تمام بڑے رہ نما اڈوانی کو منانے میں لگ گئے، آنا فانا پریس کانفرنس ہوئی،استعفی کا ڈرامہ بھی راتوں رات ختم ہوگیا، مگر دروں خانہ اقتدار کی یہ لڑائی کب تک جاری رہے گی اور یہ باہمی تنازع بی جے پی کو کس قیامت سے گزارے گا، کوئی ماہر نجومی بھی اس کی پیشین گوئی نہیں کرسکتا۔راج ناتھ سنگھ نے اپنے عہد صدارت میں اقتدار اور طاقت کی غیر منصفانہ تقسیم کی جو آگ لگائی ہے، وہ سرد ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
آج اگرخود پسند اور فرقہ پرست لیڈر مودی کوتجربے کار اڈوانی کے مقابلے میں اہمیت دی جارہی ہے، تو اس میں بی جے پی سربراہان سے زیادہ قصور خود اڈوانی کا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادت کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری نے راج دھرم نبھانے میں ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے مودی کو وزارت اعلی کی کرسی سے ہٹانے کی تجویز رکھی تھی تو اڈوانی نے ہی مضبوط ڈھال بن کر مودی کے کردار اور طریقہ حکومت کا دفاع کیا تھا، اڈوانی ہی وہ شخص تھے، جس نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مودی کی بر طرفی کی مخالفت کی تھی۔ اڈوانی نے ہی مودی نام کے سانپ کو خوراک دے کر تنو مند و توانا بنایا ہے، جو آج انھیں چہار جانب سے ڈس رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر عروج کے لیے زوال ہوتا ہے۔ کبھی اڈوانی بی جے پی کا نمایاں چہرہ ہوتے تھے۔ ان کے بغیرپارٹی کا تصور بھی نا ممکن تھا۔ بی جے پی کوایک چھوٹی پارٹی کے گوشہ گمنامی سے اس کو قومی پارٹی کی معراج تک پہنچانے میں اڈوانی نے ہی خون پسینہ بہایا ہے۔ بی جے پی جو کبھی دو تین سیٹیں جیتا کرتی تھی، اڈوانی کی تگ و تاز سے مرکز کے اقتدار تک پہنچی اور بی جے پی والے کئی سال تک اقتدار کا مزہ لوٹتے رہے۔ پارٹی کو اتنی ترقی دینے کا لازمی تقاضا تھا کہ اڈوانی کو وزرات عظمی کے منصب پر فائز کیا جاتا، لیکن ہر بار قسمت کی دیوی اڈوانی سے روٹھ جاتی تھی۔جب نوے کی دہائی میں وزرات عظمی کے منصب کی سپردگی کا مسئلہ سامنے آیا، تو باجپائی کے قد اور تجربے کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا، اس لیے اڈوانی وزارات عظمی کی خواہش پہ دم ہی بھرتے رہے۔ ۲۰۰۴ء میںدراز عمر ی کے سبب اٹل جی کو حاشیے پر رکھ کر اس مقصد سے انتخاب لڑاگیا کہ اگر قومی جمہوری محاذ  فتح کا پرچم لہراتا ہے تو اڈوانی جی ہی وزرات عظمی کرسی پر متمکن ہوں گے، لیکن بی جے پی کے درخشاں ہندستان کے نعرے کی ہوا نکل کر رہ گئی اور بی جے پی کو عام انتخابات میں ایسی شکست فاش ملی جس کا بی جے پی اور ان کی حلیف پارٹیوں کو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ خیر خدا خدا کرکے معمر لیڈر اڈوانی نے پانچ سال اور بن باس کی زندگی گزاری، ۲۰۰۹ء آیا، اس بار کا الیکشن مکمل طور پر اڈوانی کی سربراہی میں لڑا گیا، لیکن اڈوانی کی قسمت کا ستارہ اس بار بھی گردش میں ہی رہا،انھیں من موہن کی ٹیم کے سامنے پسپائی پر مجبور ہونا پڑا اور اس شکست پرچہار جانب اتنی نکتہ چینی ہوئی کہ اڈوانی کو بی جے پی کی صدارت سے مستعفی ہونا پرا۔بلکہ کئی سیاسی پنڈتوں نے تو اڈوانی کو سرگرم سیاست سے کنارہ کش ہوجانے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔اس بار بھی اڈوانی سمیت کئی بی جے پی رہ نماؤوں کے دروں میں وزارت عظمی کی خواہش جنم لے رہی ہے،اس لیے وہ لوگ مودی کے بڑھتے قد سے خائف ہیں۔ اڈوانی تو ہر حال میں ۲۰۱۴ء میں اپنی اس حسرت کی تکمیل کرلینا چاہتے ہیں۔مودی سے اختلاف کی جنگ کسی اصول ، پارٹی اور ملک کے مفاد کی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ سرتاسر حصول اقتدار کی جنگ ہے، جس میں اپنے آپ کو پچھڑتا دیکھ کر اڈوانی جی اور ان کے حامی اتنا پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔
آج اگراڈوانی کو اتنے برے دن دیکھنے پڑ رہے ہیں، تو یہ سب ان کے کالے کرتوتوں کی دین ہے۔ انھوں نے نوے کی دہائی میں رتھ یاترا نکال کر پورے ملک میں نفرت کا زہر گھولا، ان کی موجودگی میں کار سیوکوں کی مدد سے بابری مسجد شہید کردی گئی، پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، بی جے پی اور آر ایس ایس میں تو اڈوانی کا قد بڑھ گیا، لیکن پورے ملک میں اڈوانی نے اپنا قد چھوٹا کرلیا۔ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں فرقہ پرستی کا ننگاناچ ہوا، منظم طور پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، لیکن اڈوانی اس وقت بھی مودی کی وکالت کرتے رہے، اس کے بعد بھی جتنے انتخابات ہوئے، وہ ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اگلتے رہے،وہ مدارس کو دہشت گردی کی آماج گاہ قررا دیتے رہے، وہ ہر جلسے اور ہر کانفرنس میں یہ راگ الاپتے رہے کہ ہر مسلمان تو دہشت گرد نہیں ہوتا، لیکن سارے دہشت گرد مسلمان ہی ہوتے ہیں، اس طرح انھوں نے نہ صرف اقلیتوں کی دشمنی مول لے کراپنے پیروں پر کلھاڑی مار لی، بلکہ اس ملک کے سیکولر اور انصاف پسند طبقوں میں بھی اپنی شبیہ خراب کرلی۔ ہر ظالم کو اس کے ظلم کا بدلہ ملتا ہے، اڈوانی بھی اسی عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔
۲۰۰۵ء تو خاص طور پر اڈوانی جی کو یاد ہوگا، جب انھوں نے ملک کے عوام کو اپنے سیکولرازم کا ثبوت دینے کے لیے نہ صرف مملکت خداداد پاکستان کا دورہ کیا، بلکہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر حاضری بھی دی اور جناح کی تعریف میں چند جملے ادا کردیے، اب کیا تھا کہ آر ایس ایس والوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، اڈوانی اپنی زبان کے پکے ہیں، اس لیے انھوں نے اپنے بیان کی سیاسی تاویل و توجیہ تو کی، مگر وہ اپنے بنیادی بیان سے منحرف نہ ہوئے۔ آر ایس ایس والوں نے اس جرم کی پاداش میں ان کے سیاسی پر کترنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔انھیں بی جے پی کے عہدہ صدارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔آر ایس ایس کے اشارے پر بی جے پی نے انھیں ۲۰۰۹ء میں وزارت عظمی کا امیدوار تو اعلان کردیا، لیکن جب شکست ملی تو ان لوگوں نے عملی طور پر انھیں سرگرم سیاست سے الگ کرنے اور باجپائی کی طرح پارٹی کا سرپرست بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔ سشما سوراج کو لوک سبھا اور ارون جیٹلی کو راجیہ سبھا کا لیڈر بناکر یہی جتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اب اڈوانی وزارت عظمی کی دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں۔
اڈوانی کو مودی سے اتنی نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ سب سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ اگر اڈاوانی کو واقعی مودی سے اختلاف ہوتا اور بات اصول اور صابطے کی ہوتی تو وہ شب بھر میں اپنا استعفی واپس نہ لیتے۔ آخر کون سا ایسا معاہدہ ہوا ہے جس نے اڈوانی کو استعفی واپس لینے اور دوبارہ قومی جمہوری محاذ کو متحد کرنے پر مجبور کردیا۔ اس بات کو اب تک پردہ خفا میں کیوں رکھا گیا ہے۔ اگر اڈوانی واقعی اصول پرست سیاست داں ہوتے، تو وہ موہن بھاگوت اور راج ناتھ سنگھ سے ہونے والی خفیہ ملاقات اور وعدہ وعید کا دکر ضرور کرتے۔ اگر قومی جمہوری محاذ کو بچانا ہی مقصود تھا، تو اتنی جلد بازی میں استعفی کا قدم کیوں اٹھا یا؟اور جب موہن بھاگوت نے گوا کی مجلس عاملہ کے بعد یہ اعلان کردیا تھا کہ جو بھی فیصلہ لیا گیا ہے وہ حرف آخر ہے اس میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ، تو پھر اڈوانی نے کن ایشوز پر موہن بھاگوت سے مصالحت کی ہے ؟لگتا ہے دال میں کچھ کالا ہے۔ در اصل بی جے پی اور اس کے سارے حوالی موالی آر ایس ایس کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر رہ گئے ہیں، وہ ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر اپنی دم بھی نہیں ہلا سکتے۔ بات صاف ہے کہ اڈوانی نے آر ایس ایس کے کنبے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اپنی شکست فاش تسلیم کرلی ہے۔ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔استعفی نے سیاسی حلقوں میں اڈوانی کا قد اونچا کردیا تھا، لیکن استعفی کی واپسی نے نہ صرف یہ کہ بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے، بلکہ اس سے اڈوانی کی تضحیک اور توہین کا پہلو بھی بر آمد ہوتا ہے۔
جہاں تک مودی کو انتخابی تشہیر کمیٹی کا سربراہ بنانے کا سوال ہے، تو بہت جلد عوام کے سامنے اس کا انجام سامنے آجائے گا۔ مودی گجرات کے محبوب اور ترقی پسند لیڈر ہوسکتے ہیں جہاں وہ خوف اور دھمکی کی سیاست کے سہارے اقتدار کی کرسی پر متمکن ہوجاتے ہیں۔ لیکن آر ایس ایس کنبے کو یہ بات گرہ باندھ لینی چاہیے کہ پورا ملک گجرات نہیں ہے۔ گجرات کی ترقی کے ماڈل کا چہرہ بھی سوا ارب عوام کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں جیت کا پرچم لہرانے کے لیے شمال سے لے کر جنوب اور مشرق سے لے کر مغرب تک کے ہندستان کو فتح کرنا پڑتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بی جے پی صرف مدھیہ پردیش اور گجرات اورجزوی طور پر پنجاب و بہار تک محدود ہوکر دہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ریاست میں ان کی دال نہیں گلتی۔ بہار جہاں بی جے پی اقتدار میں شمولیت کی روٹی کھا رہی ہے، وہاں بھی اس کے قدم ڈانوا ڈول ہو رہے ہیں، نتیش کمار بہت جلد بی جے پی سے علاحدگی کا اعلان کرنے جارہے ہیں۔کرناٹک بی جے پی والوں کا گڑھ تھا، لیکن یدی یورپا کی بعاوت نے وہ جوتم پیزار مچائی ہے کہ سابقہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کا وہاں سے صفایا ہوگیا ہے۔ دہلی کے تخت تک پہنچنے کے لیے بہار، بنگال، مہاراشٹر اور اتر پردیش کو بھی فتح کرنا پڑے گا، جہاں کی علاقائی پارٹیاں اتنی مضبوط ہیں کہ مودی اور ان کی ٹیم کی ایک نہیں چلے گی۔مرکز کے اقتدار تک پہنچنے کے لیے تقریبا ۲۰۰ سیٹیں جیتنی پڑیں گی، جو ظاہر سی بات ہے مودی کے لیے چنے چبانے کے مترادف ہوگا۔ مودی نوجوانوں کے محبوب لیڈر ہیں، مگر مودی کے حامیوں کے عقل کے ناخن لینے چاہییں کہ ان کی تعداد کتنی ہے، اور وہ کون لوگ ہیں ۔ میڈیائی مقبولیت کے سہارے عوام کے دلوں کو فتح کرنا ممکن نہیں ہے۔بی جے پی کو اس خام خیالی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ مودی ان کے لیے ۲۰۱۴ء میں ترپ کا اکا ثابت ہوسکتے ہیں۔ چلیے یہ فرـض کرلیتے ہیں کہ سوشل میڈیا میں مودی ایک محبوب لیڈر ہیں، لیکن میڈیا سے باہر عام لوگوں میں ان کی کیا امیج ہے؟ اگر عام انتخابات میں بھی بی جے پی بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے، تو بھی مودی کی شخصیت کے اندر اتنی کشش نہیں ہے کہ وہ دوسری علاقائی پارٹیوں کو اپنے اتحاد کی چھتر چھایہ میں لا سکیں گے۔بی جے پی والوں کو ۲۰۰۴ اور ۲۰۰۹ء کے عام انتخابات سے سبق لے، تو اس کی صحت کے لیے زیادہ بہتر ہوگا۔ جس پارٹی میں حصول اقتدار کی خواہش خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلے، اس کو مرکز کے اقتدار کی رسائی کا خواب دیکھنا بند کردینا چاہیے۔
بی جے پی کا حالیہ بحران ملک کی سیکولر طاقتوں کے لیے نیک شگون سے کم نہیں ہے۔ انھیں وقت اور حالات کا تجزیہ کرکے ہی کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ نہ تو انھیں نریندر مودی کے بھوت سے خوف کھانا چاہیے اور نہ ہی اڈوانی کی مظلومیت کے بہکاوے میں آنا چاہیے۔ ایک طبقے کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ سب کچھ اڈوانی کی شبیہ کو صاف ستھرا کرنے کے لیے ایک منظم سازش کی طرح اسٹیج کیا جارہا ہے۔ تاکہ سیکولر عوام سب کچھ بھول کر اڈوانی کی حمایت میں کود سکیں۔ یاد رکھیے کہ مودی اور اڈوانی دونوں ہی ایک ہی چکے کے دو پاٹ ہیں۔ فرقہ پرستی، نفرت اور تشدد سے ہی دونوں کا خمیر تیار ہوا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ بی جے پی مکمل طور پر آر ایس ایس کے ہاتھوں کا کھلونا ہے، وہ آر ایس ایس کا ایسا مہرہ ہے، جسے وہ سیاست کی بساط پرجب اور جہاںچاہے بٹھا سکتی ہے۔ کمپین کمیٹی کا سربراہ مودی ہو یا اڈوانی، اس سے عام آدمی کو کسی معالطے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔آج سے ۲۰؍ سال قبل اڈوانی بھی مودی کی طرح ہی فائر برانڈ لیڈر تھے جو تشدد اور تعصب کی سیاست پر یقین رکھتے تھے، اس لیے اس قسم کے تنازعوں اور مودی بنام اڈوانی جنگ سے کسی سادہ لوحی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اس ملک کے لیے جتنے خطرناک مودی ہیں، اس سے کم اڈوانی بالکل بھی نہیں۔ نہ تو لوہ پروش اڈوانی اس کثیر قومی اور کثیر ثقافتی ملک کے مفاد میں ہیں اور نہ ہی نفرت کی سیاست میں یقین رکھنے والے وکاس پرش نریندر مودی۔
ABRAR AHMAD
ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL
JNU NEW DELHI 110067
MOB:9910509702